ترکی (جیوڈیسک) استنبول میں بلدیہ عظمیٰ کے انتخابات میں اکرم امام اولو کی جیت کو پورے ترکی کے لیے ایک ’نیا آغاز‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ترک صدر نے اپنی جماعت کی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ استنبول کی سڑکوں پر جشن کا سماں ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شہر استنبول میں مئیر کے انتخابات میں اکرم امام اولو کی جیت کی خبریں سننے کے فورا بعد ہزاروں شہری استنبول کی گلیوں اور سڑکوں پر اُمڈ آئے۔ اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے اُمیدوار کو استنبول میں تقریبا پچیس برس بعد فتح نصیب ہوئی ہے۔ سیکولر سی ایچ پی کے حامیوں نے ترکی کے پرچموں کے ساتھ ساتھ جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔ ایک تیس سالہ خاتون لائدا کا کہنا تھا، ”میں کئی برسوں بعد اس قدر خوش ہوں۔‘‘
انچاس سالہ امام اولو کا اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ پورے ملک کے لیے ایک نیا آغاز ہے، ”یہ انتخابات کسی ایک جماعت نے نہیں جیتے بلکہ یہ پورے استنبول اور پورے ترکی کی فتح ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”آج استنبول کے سولہ ملین شہریوں نے جمہوریت پر ہمارا یقین پختہ کر دیا ہے اور انصاف پر ہمارا اعتماد بحال ہو گیا ہے۔‘‘
امام اولو نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ شہر کے مسائل فوری طور پر حل کیے جا سکیں۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں میئر کی سیٹ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اس سے قبل ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے امام اولو کو مبارک باد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات عوامی رائے کے ترجمان تھے۔ اسی طرح حریف امیدوار اور سابق وزیراعظم بن علی یلدرم نے بھی امام اولو کو مبارک باد دی ہے۔ ان کا تعلق برسر اقتدار اسلام پسند جماعت اے کے پی سے ہے۔
مارچ میں ہونے والے انتخابات کی نسبت اس مرتبہ امام اولو نے واضح برتری حاصل کی ہے۔ پہلے انتخابات کے نتائج کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق اس مرتبہ سیکولر جماعت سی ایچ پی کے امام اولو کو چون فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں جبکہ بن یلدرم کو پینتالیس فیصد ووٹ ملے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات میں ترک معاشی بحران نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترک کرنسی کی قدر میں کمی اور افراط زر میں اضافے کی وجہ سے اے کے پی کے روایتی ووٹروں میں بھی بے چینی پائی جاتی تھی۔ امام اولو نے اپنی انتخابی مہم میں غربت، بے روزگاری اور بچوں کی بہتر نگہداشت جیسے امور کو موضوع بنایا تھا۔ انہوں نے شہری انتظامیہ کے خلاف ‘جنگ کا اعلان‘ کر رکھا تھا۔