ترکی میں کردوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ

Kurds in Turkey

Kurds in Turkey

شام (اصل میڈیا ڈیسک) انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ترکی میں کرد آبادی کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ شمالی شام میں جاری ترک عسکری کارروائیوں کے بعد دیکھا گیا ہے۔

ترکی میں قوم پرستانہ جذبات بڑھ رہے ہیں۔ اس اضافے کی وجہ ترک فوج کے شمالی شام میں کرد ملیشیا کے خلاف جاری فوجی مشن کو قرار دیا گیا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ قوم پرستانہ جذبات کے باعث کردوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان میں ترک کرد شہری بھی شامل ہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ تعصب اور نفرت پر مبنی ایسے جرائم کی شنوائی بھی کہیں نہیں ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ پندرہ اکتوبر کو ایک چوہتر سالہ شخص اکرم یصلی اپنی بیوی کے ساتھ چینک قلعہ کے شہر میں ہسپتال جا رہا تھا کہ ایک شخص نے شیشے کی بوتل سے حملہ کر کے اُسے زخمی کر دیا۔ عمر رسیدہ جوڑا کردش زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اس واقعے کی کوئی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔

اس واقعے کے حوالے سے صوبائی گورنر نے بھی اس حملے میں نسلی تعصب کے پہلو کو نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے کہا کہ چوہتر سالہ شخص نفسیاتی مریض ہے اور ان پر کیے گئے حملے کا تعلق نسلی تعصب سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس حملے کی پولیس نے بھی کوئی رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔

ہسپتال میں کیے گئے حملے نے اُس واقعے کی یاد تازہ کر دی ہے جو دسمبر سن 2018 میں پیش آیا تھا جب تینتالیس سالہ کرد شہری قادر شکئی کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا اور اُن کا سولہ سال کا بیٹا نامعلوم مسلح افراد کی گولیوں سے شدید زخمی ہے۔ یہ باپ بیٹا بھی کرد زبان میں گفتگو کرتے ہوئے بازار سے گزر رہے تھے جب اُن سے نسلی شناخت پوچھ کر گولی ماری گئی تھی۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم سے منسلک ایک وکیل Veysi Eski کا ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ استغاثہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ حملہ آور نے ہلاک کیے گئے شخص سے اُس کے ترک یا کرد ہونے کے بارے میں پوچھا ہو گا۔ ایسکئی کا مزید کہنا تھا کہ ریاست نسلی تعصب کی بنیاد پر ہونے والے جرائم اور ہلاکتوں کو نظرانداز کر رہی ہے اور یہ انصاف کے عمل کی تذلیل ہے۔

انسانی حقوق کے ایک اور گروپ سے منسلک ایرین کاشکن کا کہنا ہے کہ ایردوآن کی سیاسی جماعت کے دور میں نفرت پر مبنی تقاریر اور حملے بڑھے ہیں۔