ترکی کے اقدامات ناقابل قبول ہیں : یورپی یونین

European Union

European Union

ترکی (جیوڈیسک) یورپی یونین نے کہا ہے کہ حالیہ ناکام بغاوت کے بعد ترکی کی جانب سے نظامِ تعلیم، عدلیہ اور میڈیا کے خلاف کیے جانے والے اقدامات ’ناقابلِ قبول‘ ہیں۔

یورپی یونین کی نمائندۂ اعلی فیدریکا موگیرینی اور کمشنر جوہانس ہان نے ایک بیان میں کہا کہ انھیں ترکی کی جانب سے ہنگامی حالت کے نفاذ پر ’تشویش‘ ہے۔

اس اقدام سے ترکی کو ’حکم ناموں کے ذریعے حکومت چلانے کے وسیع اختیارات‘ حاصل ہو گئے ہیں۔یورپی یونین کے دو اعلیٰ حکام نے صدر رجب طیب اردوغان پر زور دیا کہ وہ قانون کی بالادستی، انسانی حقوق اور آزادی کی پاسداری کریں۔

انھوں نے ترکی کی جانب سے یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کو معطل کرنے پر خبردار کیا ہے، اور کہا ہے کہ اسے ان شرائط کی پاسداری کرنی چاہیے جن کے تحت اس کنونشن کو معطل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل جرمن وزیرِ خارجہ فرینک والٹر شٹائن مائر نے ترکی پر زور دیا تھا کہ وہ بغاوت کی کوشش کے ردِ عمل میں تناسب کا خیال رکھے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھی ترکی کے اقدامات کو ’غیرمعمولی کریک ڈاؤن‘ قرار دیا ہے۔ ہنگامی حالت کے نفاذ سے صدر اردوغان کو تین ماہ کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ اب وہ اور ان کا کابینہ پارلیمان کو نظر انداز کر کے قوانین منظور کر سکیں گے جنھیں عدالت چیلنج نہیں کر سکے گی۔

اس کے علاوہ میڈیا پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی، اور لوگوں کو گرفتار کرنے کے اختیارات وسیع تر کر دیے جائیں گے۔ حکومت کا اصرار ہے کہ اس سے عام لوگوں کی روزمرہ زندگی متاثر نہیں ہو گی، اور ہنگامی حالت کے نفاذ کا مقصد صرف بغاوت کے پیچھے ’وائرس‘ کا قلع قمع کرنا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد فرانس نے بھی ہنگامی حالت نافذ کی تھی۔

تاہم صدر اردوغان پر ماضی میں بھی الزام لگتا رہا ہے کہ وہ جمہوریت اور انسانی حقوق پر پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی وہ دو ملک ہیں جنھوں نے ترکی کے اقدامات پر تنقید کی ہے، تاہم صدر اردوغان نے اپنے مخصوص دوٹوک انداز میں اس کا جواب دیتے ہوئے فرانسیسی وزیرِ خارجہ سے کہا کہ وہ ’اپنے کام سے کام رکھیں۔‘

گذشتہ جمعے کو بغاوت کی کوشش کے بعد سے اب تک کئی جرنیلوں سمیت ہزاروں فوجیوں کو گرفتار یا معطل کیا جا چکا ہے جب کہ بڑی تعداد میں ججوں کو بھی معزول کیا گیا ہے۔ اب تک 50 ہزار سے زائد سرکاری ملازموں کو برطرف یا معطل کیا گیا ہے جب کہ 600 سکول بند کر دیے گئے ہیں۔

شعبۂ تعلیم سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور کئی یونیورسٹیوں کے سربراہوں کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق 34 صحافیوں کی دستاویزات منسوخ کر دی گئی ہیں۔