ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) شمالی شام سے کرد جنگجوئوں کے انخلاء کے باوجود ترکی نے اس علاقے میں کردوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی دی ہے۔ تُرکی کے وزیر خارجہ مولود جاووش اوگلو نے پیر کو دھمکی دی کہ اگر کرد گروپ ‘وائی پی جی’ کے جنگجو روس کے ساتھ معاہدے کے تحت شمال مشرقی شام میں پیچھے نہیں ہٹے تو ترکی انہیں طاقت کے ذریعے وہاں سے بے دخل کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے شمالی شام میں فوجی آپریشن معطل کیا ہے ختم نہیں کیا ہے۔ ہم ‘سیف زون’ میں دہشت گردوں کے انخلا کے منتظر ہیں۔ فوج ابھی بھی ہدایات کا منتظر ہے۔
کرد تنظیم ایس ڈی ایف میڈیا سینٹر کے ڈائریکٹر مصطفیٰ بالی نے ٹویٹر پر کہا کہ سیز فائر معاہدے کے اعلان کے باوجود ترکی اور اس کے وفادار دھڑوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری رکھی ہے۔ راس العین ، عین العرب (کوبانی) اور تل تمر میں کردآبادیوں پر بھاری ہتھیاروں اور ڈرون طیاروں سے حملے جاری ہیں۔
بالی نے مزید کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ ترکی کا معاہدے کے باوجود لڑائی روکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اسی تناظر میں شام کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘سانا’ نے جنوبی راس العین کے دیہی علاقوں میں الطویلہ اور الصکلاویہ کے نواحی مقامات اوردیہات میں ترک فوج اور کرد جنگجوئوں کے درمیان مارٹر گولوں اور دیگر ہتھیاروں سے جھڑپیں جاری ہیں۔
ایجنسی نے ٹویٹر پر پوسٹ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ تُرک افواج اور اس کے وفادار دھڑوں نے راس العین کے مشرق میں دیہی علاقے مضبعۃ گاؤں پر قبضہ کرلیا ہے
یہ قابل ذکر ہے کہ شمالی شام میں لڑنے والی کرد تنظیم ‘ایس ڈی ایف’ نے شامی فوج کے ساتھ مل کر ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک سرحدی علاقوں میں کمک بھیج دی تھی۔ اس کے بعد کرد ڈیموکریٹک فورسز نے عین العریب سے صرین کی طرف انخلاء شروع کردیا تھا۔ چند روز پیشتر سوچی میں ترکی اور روس کے درمیان طے پائے معاہدے کے تحت کرد جنگجوئوں ترکی کی سرحد سے دور ہٹنا شروع کردیا اور سرحدی علاقے ترک فوج کے حوالے کردیے تھے۔ مگراس کے باوجود ترکی فوجی کارروائیاں اور کردوں پر زمینی اور فضائی حملے جاری ہیں۔
شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پرنظر رکھنےوالے ادارے ‘سیرین آبز ویٹری’ کے مطابق شام کے شمالی علاقے میں 500 سے زیادہ امریکی فوجی سازوسامان سمیت سوموار کو دوبارہ اپنے چھوڑے ہوئے اڈوں پرلوٹ آئے ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے داعش کے لیڈرابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے ایک روز بعد ان امریکی فوجیوں کی شام میں واپسی کی اطلاع دی ہے۔ ان کا ایک فوجی اڈا شام کی ایم 4 شاہراہ پر تل تمر اور تل بیدارکے درمیان واقع ہے۔ یہ علاقہ عراق کی سرحد ،قامشیلی اور شمالی شہر حلب کے درمیان واقع ہے۔
آبزر ویٹری نے مزید اطلاع دی ہے کہ امریکی طیارے گذشتہ پانچ روز سے شام کے شہر سیرین کے ہوائی اڈے پر اتر رہے تھے۔ان طیاروں سے گاڑیاں ،فوجی سازوسامان اور آلات بھی اتارے جارہے تھے۔
ان کے علاوہ 85 گاڑیوں اور ٹرکوں پر مشتمل امریکی فوج کے دوقافلے اتوار کی شب عراق سے شامی سرزمین میں داخل ہوئے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے دو ہفتے قبل شام سے اپنی مسلح افواج کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکی فوجی شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترکی کی فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔بعد میں امریکی صدر نے اپنے اس فیصلے کا دفاع کیا تھا ۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری اسٹیفنئی گریشم نے تب ایک بیان میں کہا تھا کہ” امریکی افواج نے داعش کی علاقائی خلافت کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ اب وہ اس علاقے میں نہیں رہیں گی۔
شام کے آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق ، پیر کے روز ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد ، شمالی شام میں تازہ ترین پیشرفتوں میں ، امریکی افواج ان اڈوں پر واپس چلی گئیں جہاں سے وہ گذشتہ چند روز کے دوران شام سے شمال اور شمال مشرق میں پیچھے ہٹ گئیں۔