استنبول (جیوڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ آسٹریا حکومت کا فیصلہ صلیب وہلال کے درمیان جنگ چھیڑ نے کے مترادف۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریا کو اب اس کی جوابی کاروائی کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
آسٹریا کی جانب سے غیر ملکی معاونت سے کام کرنے والی مساجد کی بندش کے فیصلے پر ترک صدررجب طیب ایردوان نے “صلیب” اور “ہلال”کے مابین جنگ سے خبردار کیا ہے۔ ویانا حکومت کے مطابق یہ اقدام “سیاسی اسلام”کے خلاف اٹھایا گیا ہے۔
صدر ایردوان نے آسٹریا میں سات غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والی مساجد کو بند کیے جانے اور ان مساجد سے منسلک درجنوں ترک نژاد اماموں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیتے ہوئے اس اقدام کو ’اسلام مخالف‘ قرار دیا ہے۔
استنبول میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ان کو خدشہ ہے کہ آسٹریا کے چانسلر کا یہ فیصلہ دنیا کو “صلیب” اور “ہلال” کے مابین جنگ کی طرف راغب کرے گا‘۔ صدر ایردوان نے “اسلام اور عیسائی” کے درمیان جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ”اگر (آسٹریا) یہ عمل سرانجام دے گا تو ان کی جانب سے بھی اس معاملے پر جوابی رد عمل سامنے آئے گا“ اور ”مغربی ممالک کو درست سمت میں فیصلے کرنے چاہیے“۔
جمعہ آٹھ جون کو آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کرس نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیر ملکی مالی معاونت حاصل کرنے والی بیشتر مساجد کی تالہ بندی کر دی گئی ہے، درجنوں اماموں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ان سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں ترک صدر کے ترجمان نے ویانا حکومت کے اس اقدام کو ملک میں بڑھتے اسلام مخالف، نسل پرست، عوامیت پسند اور تعصب پر مبنی جذبات کی عکاسی قرار دیا ہے۔
آسٹریا میں قریب تین لاکھ ساٹھ ہزار ترک نژاد افراد مقیم ہیں، جن میں سے ایک لاکھ سترہ ہزار ترک شہری ہیں۔ انقرہ اور ویانا حکومتوں کے درمیان بڑھتے تناو کی وجہ چانسلر کرس کے مہاجرین مخالف بیانات اور ترکی کی یورپی یونین کے رکنیت کے سسلسے میں مخالفت بھی ہے۔
سیاسی اسلام کے خلاف کریک ڈاون دائیں بازو کی جانب جھکاورکھنے والے چانسلر کرس کے مطابق یہ کریک ڈاون مذہب اسلام کے خلاف نہیں بلکہ بعض افراد کی جانب سے اسلام کے سایے میں جاری سیاسی ایجنڈے کے خلاف کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق ویانا میں ایک ایسی مسجد کو بند کیا گیا ہے، جو ترک قوم پرستوں کے زیر انتظام تھی۔مزید ویانا حکومت نے مسلمانوں کے ایک مسلمان مذہبی گروپ ’ عرب کمیونٹی‘ کو بھی تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ یہ مذہبی گروپ کم از کم چھ مساجد کا انتظام و انصرام رکھتا تھا۔
ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے بھی آسڑیا کے سات مساجد کو بند کرنے کے فیصلے کے خلاف شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ”یہ حرکت اسلام دشمنی” کی عکاس ہے۔
ایک ٹیلی ویژن چینل پر سوالات کا جواب دینے والے وزیر اعظم نے آسڑیا کے غیر اخلاقی اس فیصلے کے خلاف اپنے رد عمل کا مظاہرہ کیا۔
جناب یلدرم نے کہا کہ یہ فیصلہ عالمی قوانین ، یورپی یونین کی اقدار اور اقلیتی حقوق کے منافی ہے۔