لندن (جیوڈیسک) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشینل کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ترکی مبینہ طورپر ہزاروں پناہ گزینوں کو زبردستی شام واپس بھیج رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کی واپسی اور غیر انسانی سلوک افسوسناک ہے۔
عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری کے وسط سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 100 شامی شہریوں کو جنگ سے متاثر ملک واپس بھیجا جا رہا ہے۔ بے داخل ہونے والے افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان حالیہ معاہدے کی حامیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
اس معاہدے کا مقصد یونان میں پناہ گزینوں کی آمد روکنا تھا۔ دوسری جانب ترکی نے کسی بھی پناہ گزین کو اس کی مرضی کے بغیر واپس بھیجنے کی تردید کی ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے تحت ریاست کسی بھی شخص کو جنگ کا شکار ملک واپس نہیں بھیج سکتی ہے۔ ایک کیس میں والدین کے بغیر ان کے تین بچوں جبکہ ایک اور معاملے میں آٹھ ماہ کی حاملہ خاتون کو زبردستی واپس بھیجا گیا ہے۔
ان میں زیادہ تر غیر رجسٹرڈ پناہ گزین شامل ہیں جبکہ کچھ رجسٹرڈ پناہ گزین کو بھی واپس بھیجا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر برائے یورپ اور وسطی ایشیا جان ڈولسن کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کی واپسی اور غیر انسانی سلوک واقعی افسوسناک ہے۔ ترکی کو فوری طورپر اس سب کو بند کرنا چاہئے۔ ڈولسن کا کہنا ہے کہ سرحدیں بند کرنے کی شدید خواہش میں یورپی یونین کے رہنمائوں نے جان بوجھ کر حقائق کو نظرانداز کر دیا۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر بوجھل دل کے ساتھ عمل کیا جا سکتا ہے اور یہ عالمی قوانین کو نظرانداز کرتا ہے۔
ایک پناہ گزین نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجی اہلکاران کو شامی سرحد تک لے گئے جہاں ان سے ایک صفحے پر زبردستی دستخط کرائے گئے جس پر میں شام واپس جانا چاہتا ہوں تحریر تھا۔
ترکی کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کیلئے دروازے کھلے رکھنے کی پالیسی کو برقرار رکھا ہے اور لوگوں کو واپس نہ بھیجنے کے اصول پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کاکہنا ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے معاہدے سے پناہ گزین ممکنہ طورپر دوسرے اور زیادہ خطرناک راستوں کا استعمال شروع کر سکتے ہیں۔