ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) انسانی حقوق کے تحفظ اور تارکین وطن کی مدد کے لیے سرگرم درجنوں تنظیموں نے ترکی کو مہاجرین کے لیے محفوظ ملک قرار دینے پر یونان پر کڑی تنقید کی ہے۔ یونانی فیصلے کا مقصد یہ تھا کہ ترکی پناہ گزینوں کو واپس اپنے ہاں قبول کرے۔
ربڑ کی ایک کشتی پر سوار یونانی جزیرے لیسبوس کے ساحل تک پہنچنے والے افغان، پاکستانی اور شامی مہاجرین ربڑ کی ایک کشتی پر سوار یونانی جزیرے لیسبوس کے ساحل تک پہنچنے والے افغان، پاکستانی اور شامی مہاجرین
یونانی دارالحکومت ایتھنز سے منگل پندرہ جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق مہاجرین اور تارکین وطن کی مدد اور انسانی حقوق کے تحفط کے لیے فعال درجنوں غیر سرکاری تنظیموں نے یونان کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے، جس میں ترکی کو تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ اس درجہ بندی کے بعد ایتھنز حکومت کے لیے جواز پیدا ہو جائے کہ وہ ترکی سے آنے والے ان مہاجرین کو واپس بھیج سکے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
ایسی 40 سے زائد تنظیموں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ترکی پناہ کے متلاشی افراد اور مہاجرین کے لیے اس وجہ سے کوئی محفوظ ملک نہیں ہے کہ وہاں 1951 کے مہاجرین سے متعلق کنوینشن کے تحت پناہ کے متلاشی ایسے غیر ملکیوں کو بین الاقوامی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، جو یورپی ممالک کے شہری نہ ہوں۔
ان امدادی تنظیموں میں ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی یونانی شاخ، گریک ہیلسنکی مانیٹر اور کئی ایسی غیر حکومتی تنظیمیں بھی شامل ہیں، جو تارکین وطن یا خاص طور پر خواتین کی مدد کرتی ہیں۔
ان تنظیموں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا، ”اس سال مارچ میں ترک حکومت نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ استنبول کنوینشن میں اپنی شمولیت سے دستبردار ہو جائے گی۔ تو ایسی صورت میں ترکی ان متاثرین کو بھی کوئی تحفظ فراہم کرنے کا پابند نہیں ہو گا، جنہیں صنفی بنیادوں پر تشدد اور تعاقب کا نشانہ بنایا گیا ہو۔‘‘
ان درجنوں تنظیموں کی طرف سے ترکی کے مہاجرین کے لیے محفوظ ملک ہونے سے متعلق یونانی حکومت کے فیصلے پر شدید تنقید اس لیے کی جا رہی ہے کہ ایتھنز میں تارکین وطن سے متعلقہ امور کی یونانی وزارت نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک بڑا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت ترکی کو یہ درجہ دے دیا گیا تھا کہ وہ شام، افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور صومالیہ کے پناہ کے خواہش مند باشندوں کے لیے محفوظ ہے۔
ساتھ ہی اس یونانی وزارت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا، ”ترکی میں ان ممالک کے شہریوں کو ان کے مذہب، قومیت اور سیاسی سوچ کی بنا پر کسی بھی طرح کے خطرات کا سامنا نہیں ہوتا اور اسی لیے ایسے تارکین وطن کو یونان کے بجائے ترکی میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔‘‘
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ایتھنز حکومت اس بارے میں اب زیادہ تاخیر نہیں کرنا چاہتی کہ وہ ایسے تارکین وطن کو واپس اپنے مشرقی ہمسایہ ملک ترکی بھیجنا شروع کر دے، جو ترکی سے ہی یونان میں داخل ہوئے تھے اور جن کی یونان میں پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
گزشتہ 15 ماہ کے دوران ترک حکام ایسے تقریباﹰ ڈیڑھ ہزار مہاجرین اور تارکین وطن کو واپس اپنے ہاں قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں، جنہین یونان واپس ترکی بھیجنا چاہتا تھا۔
یونانی کمیپوں میں مہاجرین کا تعلق کن ممالک سے؟ یونان کے بہت سے جزائر ایسے ہیں جہاں قائم مہاجر کمیپ زیادہ تر ترکی سے کشتیوں کے ذریعے آنے والے تارکین وطن سے بھرے ہوئے ہیں۔
ان کیمپوں میں رہائش کی صورت حال بھی بہت غیر تسلی بخش ہے۔ وہاں مقیم پناہ کے متلاشی افراد کو تعلق زیادہ تر ایشیائی ممالک سے ہے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے کے مطابق یونانی جزائر پر مہاجر کیمپوں میں مقیم تارکین وطن میں سے 47 فیصد صرف ایک ملک افغانستان کے شہری ہیں۔ ان تارکین وطن میں بڑی تعداد میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جبکہ 15 فیصد جنگ زدہ ملک شام کے شہری اور نو فیصد افریقی ملک صومالیہ کے باشندے ہیں۔
اس سال جنوری سے لے کر اپریل تک کے عرصے میں ترکی سے مزید ایک ہزار سے زائد تارکین وطن یونانی جزائر تک پہنچے تھے۔