استنبول (جیوڈیسک) ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ امریکا جو کچھ بھی کہتا رہے، ترکی روس سے ایس 400 میزائل دفاعی نظام کی خریداری کے سودے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
انھوں نے یہ بات ترک نشریاتی ادارے ٹی جی آر ٹی خبر سے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔ترکی کے روس سے میزائل دفاعی نظام کی خریداری کے لیے اصرار کے ردعمل میں امریکا نے اس کو ایف 35 لڑاکا جیٹ مہیا کرنے کا عمل منجمد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔امریکا کا کہنا ہے کہ ترکی بیک وقت جدید لڑاکا طیارے اور روس سے میزائل دفاعی نظام خرید نہیں کرسکتا ۔
واضح رہے کہ امریکا ترکی کو روس سے ایس-400 میزائل دفاعی نظام کی خریداری پر کئی مرتبہ خبردار کرچکا ہے ۔امریکی حکام یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ترکی کو روس سے دفاعی سازوسامان کی خریداری پر امریکی قانون کے تحت پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے اور امریکی طیارہ ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن کے ساختہ ایف -35 لڑاکا جیٹ کی خریداری کے سودے پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
امریکا نے گذشتہ دسمبر میں ترکی کو ساڑھے تین ارب ڈالرز مالیت کے میزائل نظام فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔اس نے یہ فیصلہ ترکی کی جانب سے روس سے میزائل دفاعی نظام کی خریداری کے سودے کی اطلاعات کے بعد کیا تھا اور ترکی پر اپنے غصے کا بھی اظہار کیا تھا۔
لیکن ترکی کا یہ مؤقف ہے کہ امریکا اور رو س کے ساختہ دونوں میزائل دفاعی نظام ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہو سکتے ۔ایس -400 میزائل دفاعی نظام کی ڈیل صدر رجب طیب ایردوآن اور روسی صدر ولادی میر پوتین کے درمیان گرم جوش تعلقات کی اہم علامات میں سے ایک ہے۔دونوں صدور شام میں جاری بحران کے سیاسی حل کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
صدر ایردوآن نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ ترکی اسرائیل کے زیر قبضہ شام کے علاقے گولان کی چوٹیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھا ئے گا۔
انھوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گولان کی چوٹیوں سے متعلق بیانات دراصل ان کی طرف سے اسرائیل میں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے قبل وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے لیے تحفہ ہیں۔
صدر ٹرمپ نے گذشتہ جمعرات کو گولان کی چوٹیوں پر اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنے کا اعلان کردیا تھا اور ان کا یہ فیصلہ امریکا کی پالیسی کے بالکل برعکس تھا۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بہ قول امریکی صدر اس ضمن میں آج سوموار کو ایک حکم پر دست خط کردیں گے۔
اسرائیل نے شام کے اس علاقے پر 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اور 1980ء کے اوائل میں اس کو غاصبانہ طور پر صہیونی ریاست میں ضم کر لیا تھا مگر اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے اس کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ گولان کو ایک مقبوضہ علاقہ ہی سمجھتے ہیں۔