انقرہ (جیوڈیسک) ترکی کے نائب وزیراعظم نورالدین جانیکلی نے کہا ہے کہ ان کے ملک کی حمایت یافتہ فورسز 90 کلومیٹر طویل سرحدی پٹی کو محفوظ بنانے کے بعد شام میں مزید اندر تک جا سکتی ہیں۔
نورالدین نے انقرہ میں کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک فورسز کی شام میں 24 اگست کو جنگی مہم کے آغاز کے بعد سے داعش اور کرد ملیشیا کے 110 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکی صدر براک اوباما کو شام کے شہر الرقہ میں داعش کے خلاف مشترکہ آپریشن کے بارے میں آگاہ کردیا ہے کہ وہ اس کو مثبت انداز سے دیکھتے ہیں۔ ان کے اس بیان سے چندے قبل روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ اس کو شام میں ترک فوجیوں اور ترکی کی حمایت یافتہ شامی حزب اختلاف کی فورسز کی نقل وحرکت پر گہری تشویش لاحق ہے کیونکہ اس سے شام میں عسکری اور سیاسی صورت حال زیادہ سنگین ہوسکتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”اس سے شامی عرب جمہوریہ کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت داؤ پر لگ جائے گی۔ہم انقرہ پر زوردیتے ہیں کہ وہ مزید کسی ایسے اقدام سے گریز کرے جس سے شام میں صورت حال مزید عدم استحکام کا شکار ہوسکتی ہو”۔
درایں اثناء شام کے داعش سے آزاد کرائے گئے سرحدی شہر جرابلس میں شہریوں کی واپسی شروع ہوگئی ہے اور بدھ کے روز 292 شامیوں پر مشتمل پہلا گروپ ترکی سے جرابلس میں اپنے گھروں کو لوٹا ہے۔
ترک فوج اور اس کے اتحادی شامی باغیوں نے 24 اگست کو داعش کے خلاف فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد سب سے پہلے جرابلس کو بازیاب کرایا تھا اور اس پر اپنا کنٹرول قائم کیا تھا۔
ترکی کے سرحدی صوبے غازی عنتاب کے گورنر کے دفتر کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ”آج سے شامی مہاجروں کی باضابطہ واپسی شروع ہوگئی ہے”۔ ترکی نے ایک مرتبہ پھر سرحدی علاقے میں شامی مہاجرین کی محفوظ واپسی کے لیے ایک محفوظ گذرگاہ کے قیام پر بھی زور دیا ہے۔
ادھر برطانیہ میں امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے کہا ہے کہ ”امریکی سفارت کار روس کو شام میں ایک حقیقی جنگ بندی کے لیے اقدامات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ روس سے یہ بھی تقاضا کررہے کہ وہ شام کو سیاسی انتقال اقتدار پر رضامند کرنے کے لیے صدر بشارالاسد کی حکومت پر دباؤ ڈالے لیکن شام سے آنے والی خبریں کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
امریکی وزیر دفاع نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اب اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا روس کی ذمے داری ہے اور اس کے نتائج وعواقب کا بھی وہی ذمے دار ہوگا”۔