ترکی (جیوڈیسک) صدر رجب طیب ایردوان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور کہا ہے کہ ترکی کردوں سے نہیں بلکہ سیکورٹی کے لیے خطرے کا باعث بننے والے دہشت گرد تنظیموں سے برسر پیکار ہے اور ان کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے ٹرمپ کے شام سے انخلا پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اس دائرہ کار میں نیٹو کے رکن ملک ہونے کے ناتے امریکہ کی ہر ممکنہ حمایت جاری رکھے گا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں ممالک کے تعلقات کے علاوہ شام کی تازہ ترین صورت ِ حال پر بھی گور کیے جانے سے آگاہ کیا گیا۔
جاری کردہ اعلامیے کے مطابق خطے میں طاقت کے خلا کو روکنے کے لیے منبج کے روڈ میپ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور انخلا کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر کو ان کے اس عمل سے روکنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
انہی ذرائع کے مطابق دونوں رہنماوں کی بات چیت میں شام کی علاقائی سلامتی کی بنیاد کے دائرہ کار میں ملک کے شمال میں بفر زون قائم کرنے کے بارے میں بھی غور کیا گیا۔
صدر ایردوان نے بات چیت میں کہا ہے کہ ترکی کا کردوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بننے والی دہشت گرد تنظیموں داعش، پی کے کے، اور پی کے کے کی شام میں موجود ایکسٹنشن کے خلاف جدو جہد کو جاری رکھنا اور ان کا خاتمہ ہے۔
ٹرمپ کے اس سے قبل کل دینے جانے والے بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ” شام میں کردوں کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی صورت میں ترک اقتصادیات کو نشانہ بنا یا جائے گا ” پر ترکی کی جانب سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا تھا۔
دونوں رہنماؤں نے بات چیت میں اقتصادی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے بارے میں مطابقت پائے جانے کا اظہار کیا ہے۔