شام (اصل میڈیا ڈیسک) شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘سیرین آبزر ویٹری فار ہیومن رائٹس’ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام کے شہر راس العین میں ترکی کے فضائی حملے میں شہریوں اور صحافیوں سمیت نو افراد ہلاک ہو گئے۔
آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبد الرحمن نے بتایا کہ یہ حملہ شمالی شام کے علاقے القاشملی سے راس العین میں یکجہتی کے لیے آنے والے ایک گروپ پر کیا گیا۔
شام میں کردوں کی نمایندہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز’ایس ڈی ایف’ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ترکی کے جنگی طیاروں نے “سویلین قافلے” پر حملہ کیا ہے۔ شامی ڈیموکریٹک فورسز کے جنرل کمانڈ نے “فیس بک” پربنائے صفحے پر بتایا کہ ترک فوجیوں نے شمال مشرقی شام کے رہائشیوں کے قافلے کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
کرد قیادت نے وضاحت کی کہ شہریوں کا قافلہ ترکی کی فوجی مہم کے خلاف اور راس العین کی آبادی سے اظہار یکجہتی کے لیے وہاں آیا تھا۔
“العربیہ” اور “الحدث” کے نامہ نگار نے بتایا کہ ترکی کی بمباری صحافیوں سمیت کئی عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔
شامی حکومت کے میڈیا کے مطابق انہوں نے راس العین کے علاقوں میں ترک افواج کے دستے داخل ہوتے دیکھے ہیں۔
ترکی کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ وہ کردوں کے خلاف کارروائی میں اسٹریٹجک ہائی وے پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
وزارت دفاع نے اتوار کے روز اپنے ٹویٹر پیج پر پوسٹ کردہ ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ترکی اور اتحادی شامی افواج شام کے اندر 35 کلو میٹر کی گہرائی تک پہنچنے کے بعد اس نے شمال مشرقی شام سے گذرنے والی “M-4” شاہراہ پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔
ترکی نے شام میں کرد جنگجوؤں کو دہشت گرد قرار دے کرکہا ہے کہ اس کا مقصد ترکی کی قومی سلامتی کی وجوہات کی بنا پر انہیں ترکی کی سرحد سے ہٹانا ہے۔ تاہم شام میں ترکی کی فوجی کاروائی پر عالمی برادری کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ عالمی برادری کا کہنا ہے کہ ترکی جی فوجی کارروائی سے شام میں شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے سے جاری ترک فوجی آپریشن میں شام میں ایک لاکھ 30 ہزار افراد گھر بار چھوڑنے پرمجبور ہوچکے ہیں۔