تحریر: محمد قاسم حمدان ترکی مسلم دنیا کا واحد ملک ہے جو ایشیا اور یورپ میں ہے جس سے اس کی اسٹر ٹیجک پوزیشن نہایت اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔ ترکی اور پاکستان میں محبت ومودت اور احترام کے رشتے بہت مضبوط ہوئے ھیں ترکی اور پاکستان دو علیحدہ ملک ضرور ھیں لیکن یہاں کے باسیوں کے دلوں کی دھڑکنیں ایک ساتھ دھڑکتی ھیں۔ ترکی واحد ملک ہے جہاں پاکستان کے لوگوں کو بہت زیادہ عزت واحترام دیا جاتا ھے۔ ترکی کی محبت کی بہترین مثال میٹرو بس منصوبہ ھے پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی تباہی ہو یا کشمیر کا مسئلہ ترکی نے ہر فورم پر ہماری حمایت ترجمانی کا حق ادا کیا ہے اسی محبت کے سبب ترکی میں اردو کافی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔
اس وقت ترکی کی تین یونیورسٹیوں میں اردو ڈیپارٹمنٹ موجود ھیں ۔ان جامعات کے ترک اساتذہ نے اور ٹی ار ٹی سے وابستہ ڈاکٹر فرقان حمید نے اردو کی پہچان کے لئے ترک اردو لغات تیار کی ھیں ۔ترکی نے گیلی پولی کی صد سالہ تقریبات منائی تو صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی خصوصی شرکت کی ۔ آج جب ترکی گہری سازش کے نتیجے میں خون میں نہلا دیا گیا تو جتنا دکھ درد اور غم ترک عوام کو ہوا اتنے ھی ھمارے دل بھی دکھی ہوے حالانکہ ھم خو ددہشت گردی کی اگ میں جل بھن رہے ھیں اس کے باوجود فخر پاکستان جنرل راحیل شریف سوگوار لمحات میں انقرہ جا پہنچے اور طیب اردوگان ،احمد داود ،اولو اور چیف آف آرمی اسٹاف سے اظہار افسوس کیا ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔
ترکی میں جب لوگ امن اور جمہوریت کے نام سے ریلی نکال رہے تہے جس کی کال کرد نواز ایچ ڈی پی اور این جی اوز نے دی تھی اور جس کا مقصد کرد علیحدگی پسند گروپ پی کے کے ،کے خلاف تشدد کا خاتمہ تھا اس ریلی میں ری پبلکن پیپلز پارٹی سمیت اپوزیش کی دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں عین دوپہر کے وقت تاریخی شہر انقرہ کے مرکزی ریلوے اسٹیش کے قریب بم دھماکوں سے کہرام مچ گیا ہر طرف قیامت صغری کا منظر تھا ہر سمت خون کی سرخی پھیل گئی اور لوتھٹرے بکھر گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام پسند جماعت اور لیڈروں کی مقبولیت نے ترکی کے تئیںپڑوسی یورپی ممالک کو خوف زدہ کر رکھا ہے اور اس کے نتیجے میں کردوں سمیت بایاں محاذ سے وابستہ جنگجووں کو شہ دی جا رہی ہے۔
Freedom Flotilla
آپ کو یاد ہو گا کچھ عرصہ قبل ترکی کے لوگوں نے فریڈم فلوٹیلا کے نام سے فلسطین کے مظلوم ومقہور ،محصور اور بہوک وافلاس سے دم توڑتے بے حال مسلمانوں کی امداد کے لئے قافلہ سمندر کی لہروں پر روانہ کیا تھا مگر اسرائیل نے عالمی سمندر ی حدود میں اس کی ناکہ بندی کی۔ فلوٹیلا میں شامل دنیا بھر کے سماجی ورکرز اور صحافیوں پر تشدد کیا اور کئی ترک باشندوں کو شہید کردیا اس پر ترکی نے سخت ردعمل اور استقامت کا موقف اپنا کر اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اسرائیل نے باور کر لیا کہ دن بدن ترقی کے زینے طے کرتا ترکی اس کے مقاصد میں روکاوٹ بن سکتا ہے ۔اگر مسلم امہ سے کوئی اس کے عزائم کی دیوار گریہ کو گرا سکتا ہے تو وہ ترکی ہی ہے۔
اردوگان کا مغرب کی نظر میں ایک اور جرم اسرائیل کی انکہوں میں انکھیں ڈال کر بات کرنا ہے ڈاوس کے اقتصادی فورم میں انہوں نے اسرائیل کے صدر کو کافی لتاڑا تھا۔ اسرائیل کو ترک فوجی مشقوں سے بھی نکال دیا تھا اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات تک منقطع کر لئے تھے ۔ ترکی میں اس وقت تیس لاکھ شامی مہاجرین موجودہیں جو شرار الاسد کی فرعونیت کی بھینٹ چڑھ کر اپنے گھر بار سے دربدرآج ترکی میں پناہ لئے ہوئے ھیں اسی طرح سعودی عرب میں 25 لاکھ شامی ان کے مہمان ھیں۔ ترکی یہ سمجھتا ہے کہ شام کا امن فرعون اسد اور اس کے حلیفوں سے نجات سے ممکن ہے۔اس حوالے سے ترکی کا موقف بڑا واضح ہے ۔ میانمار میں اراکانی مسلمانوں کی نسل کشی ان کو اگ میں جلانا اور ریپ جیسے واقعات ہوئے انہیں دنیا میں سب سے مظلوم اقلیت قرار دیا گیا لیکن کوئی ان کی مدد کو تیار نہ ہوا۔
ہاں اگر کسی نے ان کے انسو پونچھے تو وہ طیب اردوگان اور ان کی بیوی تھی۔ انڈونیشیا میں اراکانی مسلمانوں کی نہ صرف مدد کی بلکہ سینکڑوں کو انقرہ میں اپنا مہمان بنایا ترکی کا یہ کردار یورپ ،امریکہ اور اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔اس تناظر میں یہ دھماکے خطے کو غیر مستحکم کرنے والے واقعات کی ایک کڑی ہے۔اس سے قبل اٹھ ستمبر کو بھی کردوں نے مبینہ حملوں میں 28 سکیورٹی اہلکار مارے تھے پھر ترک پولیس کے چودہ اہلکار اس وقت شہید ہوئے ۔جب ان کی بس کو دھماکے سے اڑایا گیا تھا۔ اس طرح ترکی کے علاقے حکاری میں ترکی کے 16 فوجی بم دھماکے میں مارے گئے الغرض کردوں اور دوسرے دہشت گرد گروہوں اور ترکی کے مابین ہونے والی خانہ جنگی میں اب تک چالیس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
Peace Agreement
ترکی کی موجودہ حکومت نے کرد باغیوں کے ساتھ امن معاہدہ کیا بلکہ کردوں کے کئی جائز مطالبات اپوزیشن جماعتوں کی شدید تنقید کے باوجود مان کر انہیں قومی دھارے میں شامل کیا لیکن خطے کی موجودہ صورتحال دیکھ کر کردوں نے معاہدہ توڑ کر پھر دہشت گردی کے اژدہے سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔ ترکی جو عظمت رفتہ کے زینے کامیابی سے طے کر رہا تھا جہاں اتاترک نے خلافت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد سیکولرزم کا سہارا لیا صدیوں تک دنیائے اسلام کی قیادت کرنے والی ریاست اپنے مسلم تشخص اور شناخت سے محروم ہو گئی۔ مغرب کی تائید وحمایت اور تقلیدکے لئے اسلام سے نفرت کو سیکولرزم کی تعریف قرار دیا گیا ۔ جہاں مساجد اور اذان بند ہو گئے قرآن کی تعلیم جرم بن گیا ۔اسلام کے عائلی قوانین کی جگہ سوئس قوانین کو آئین کا حصہ بنایا گیا ۔دوسری بیوی رکھنا تو جرم لیکن گرل فرینڈ رکھنے پر کوئی باز پرس نہ تھی۔
اتاترک نے پوری کوشش کی کہ اسلام اور مسلمانوں سے تعلق کی ہر نشانی کو مٹا کر ترکی کو مشرق سے کاٹ کر مغرب کے قدموں میں ڈال دیا جائے مگر ایک دہائی قبل حالات نے کروٹ لی اور طیب اردوگان کی قیادت میں وہ ترکی جسے یورپ کا مرد بیمار قرار دیا جاتا تھا جو یورپی یونین کی رکنیت کے لئے ہاتھ جوڑ کر بھیک مانگا کرتا تھا۔ معاشی طور پر پورے یورپ سے اگے نکل گیا تجزیہ کاروں کے مطابق ترکی اپنے خطہ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پچاس برس اگے نکل چکا ہے۔ ترکی مستحکم معیشت اور معیاری تعلیم دونوں میدان میں بہت تیزی سے اگے بڑھ رہا ہے پہلے کوئی ملک ترکی کو قرض دینے پر تیار نہیں ہوتا تھا لیکن اج کا ترکی اسلام کو اپنانے اور بیدار مغز باحمیت قیادت کے سبب دوسروں کی مالی مدد کرتا نظر اتا ہے۔ پچھلے سال ترکی نے بین الااقوامی مالیاتی ادارے ئی ایم ایف کو پانچ ملین امریکی ڈالر دئیے ہیں۔
Islami Groups
اسلام پسندوں کی ان تمام پیش قدمیوں نے ترک سیکولروں اور مغرب کی نیندیں اڑا دیں۔ انہیں محسوس ہونے لگا کہ ترکی جلد ہی ایک اسلامی ملک میں تبدیل ہو جائے گا۔ چنانچہ ترکی کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں شروع ہوئیں۔ اس سال جون میں جب انتخاب ہونے لگے تو تمام اسلام مخالف ایک اتحاد میں جمع ہو گئے ۔بیرونی امداد و حمایت کے باوجود یہ سیکولرزم کے پجاری کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اس انتخاب میں چونکہ صدارتی نظام کو اپنانے کا آق نے اعلان کر رکھا تھا تو عوام نے اس طرز حکمرانی کو مسترد کردیا اور آق اس اکثریت سے محروم ہوئی جو حکومت بنانے کے لئے ضروری تھی۔اس بنا پر ایک بار پھر ترکی میں یکم نومبر کو انتخاب ہو رہے ہیں۔ اس دفعہآق کو دو تہائی اکثریت ملنے کی قوی امید ہے مگر دشمن نے ترک عوام کو خون میں نہلا کر آق کی جیت پر خونی وار کیا ہے۔
چند روز قبل پی کے کے ،کے سربراہ مراد قارایلان نے ایک ٹویٹ میں ملک میں انتخابات سے قبل خونریز واقعات رونما ہونے کے بارے میں متنبہ کیا تھا ۔یہاں داعش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ داعش بظاہر خلافت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے لیکن عجب تماشہ کہ مسلمانوں کی لاشوں پر خلافت قائم کر رہی ہے اور یہ بات بھی دنیا جانتی ہے کہ وہ یورپ واسرائیل کی تیل کمپنیاں اس کے تیل کی خریدار ہیں جو روزانہ ملین ڈالرز کا اس سے کاروبار کرتی ہیں۔ داعش ترکی اور سعودی عرب کو کافر کہہ کر قتل کرنیکی دھمکیاں دیتی ہے لیکن اسرائیل اور یورپ کے خلاف اس کا کبھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔جون میں ہونے والے انتخاب سے قبل بھی اپوزیشن پارٹی کے ایک جلسہ میں اس طرح کا دھماکہ ہوا تھا۔
AK Party
چنانچہ ترک دشمن طاقتیں اور سیکولر این جی اوز ،اپوزیشن پارٹیاں آق پارٹی کا راستہ روکنے کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہیں۔ اس کا مقصدعوام میں حکومت کے خلاف نفرت کا جاوا پکانا ہے اور اپوزیشن کی طرف ہمدردی اور ووٹ بینک کا رخ موڑنا ہے۔ طیب اردوگان جو بلاشبہ مرد بحران ہیں ۔انہیں فہم وتدبر اور صبر وتحمل کے ساتھ آگے بڑھ کر دھماکوں کے پس پردہ مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنا ہے تاکہ یکم نومبر کی فتح ان سے کوئی چھین نہ سکے۔