واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عراقی صدر برہم احمد صالح سے ٹیلی فون پر شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترکی کی فوجی کارروائی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔انھوں نے امریکا کی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ ترکی کی اس فوجی کارروائی کا فوری خاتمہ چاہتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق مائیک پومپیو نے صدر برہم صالح سے گفتگو میں عراق میں تشدد کے حالیہ واقعات کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد کی کارروائیوں کے مرتکبین اور میڈیا کو ڈرانے دھمکانے کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔‘‘ان کا اشارہ حالیہ احتجاجی مظاہروں کے شرکاء پر عراقی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کی جانب تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوموار کو ترکی سے شام میں کردوں کے خلاف فوجی کارروائی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا تھا اور ترکی پر نئی پابندیاں عاید کردی تھیں۔
دریں اثناء فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں وائی ویس لی دریان نے شمال مشرقی شام میں جیلوں کی سکیورٹی اور داعش کے غیر ملکی جنگجوؤں کے فرار سے متعلق امور پر بات چیت کے لیے عراق کے دورے کا اعلان کیا ہے۔
انھوں نے منگل کے روز پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ انھیں صدر عمانوایل ماکروں نے عراق جانے کی ہدایت کی ہے۔ وہ وہاں کردوں سمیت تمام فریقوں سے شمالی شام میں سکیورٹی کی صورت حال پر بات چیت کریں گے۔
کرد ذرائع کے مطابق شام کے شمال مشرقی علاقے میں واقع جیلوں میں داعش کے قریباً 12 ہزار جنگجو قید ہیں۔ ان میں ڈھائی سے تین ہزار غیر ملکی ہیں۔ان کے علاوہ ان کے خاندانوں کے 12 ہزار افراد کیمپوں میں زیر حراست ہیں۔یہ بھی تمام غیر ملکی ہیں اور ان میں آٹھ ہزار بچے اور چار ہزار خواتین ہیں۔
لی دریان کا کہنا تھا کہ ان زیر حراست جنگجوؤں میں دسیوں فرانسیسی جنگجو ہیں جبکہ فرانس کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ 60 سے 70 فرانسیسی اپنے بیویوں کے ساتھ شمال مشرقی شام میں جیلوں یا حراستی کیمپوں میں بند ہیں۔
شامی جمہوری فورسز نے خبردار کیا ہے کہ ترکی کی علاقے میں فوجی کارروائی کے بعد ان کیمپوں کا انتظام سنبھالنا ان کے بس میں نہیں رہا ہے۔کرد ملیشیا کے زیر انتظام ایک جیل سے اختتام ہفتہ پر داعش کے سیکڑوں جنگجو فرار ہوگئے تھے اور ان میں بہت سے غیر ملکی بھی تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کرد وں کے زیر قیادت شامی جمہوری فورسز انھیں شاید جان بوجھ کر چھوڑ رہی ہیں تاکہ امریکا اور مغربی ممالک کی حمایت حاصل کی جاسکے اور علاقے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو روکا جاسکے۔