ترکی (جیوڈیسک) ترکی نے شام کے شمالی علاقے میں خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ پر بمباری کی ہے۔
اس کے علاوہ اطلاعات کے مطابق ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغی بھی دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی شروع کرنے والے ہیں۔
ترکی جانب سے دولتِ اسلامیہ پر بمباری سنیچر کو غازی عنتب شہر میں شادی کی تقریب پر خودکش حملے کے بعد کی گئی ہے۔ خودکش حملے میں 54 افراد ہلاک ہو گئے جن میں سے اکثریت بچوں کی تھی۔
ترکی نے اپنی حدود سے توپخانے کے ذریعے شامی علاقے جرابلس اور منبج میں دولتِ اسلامیہ اور کرد ملیشیا وائے پی جی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
کرد جنگجو منبج میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں تاہم ٹی وی رپورٹس کے مطابق ترکی نے اس علاقے میں کرد جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو نے کہا ہے کہ شام کے شمالی علاقوں سے دولتِ اسلامیہ کا صفایا کر دیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق غازی عنتب شہر میں اس وقت 15 سو کے قریب شامی باغی موجود ہیں اور یہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے احکامات کے انتظار میں ہیں۔
دوسری جانب ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ غازی عنتب شہر میں خودکش حملہ کرنے والے بمبار کی عمر کا تعین ابھی نہیں ہو سکا۔
اس سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ خودکش بمبار کی عمر 12 سے 14 برس تھی تاہم ترک وزیراعظم کے مطابق خودکش بمبار کی عمر کا تعین عینی شاہدین کی مدد سے کیا گیا تھا لیکن ابھی حتمی طور پر ابھی واضح نہیں ہو سکا۔
غازی عنتب میں خودکش حملے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ خودکش بمبار کی عمر 12 سے 14 سال کے درمیان تھی۔ ترک صدر نے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
غازی عنتب شام کی سرحد کے قریب واقع ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہاں دولتِ اسلامیہ کے خفیہ گروہ سرگرم ہیں۔