ترکی (جیوڈیسک) ترکی میں حکام کا کہنا ہے کہ شادی کی تقریب میں دھماکے سے کم از کم 30 افراد ہلاک اور لگ بھگ 100 افراد زخمی ہو گئے۔
یہ دھماکا ملک کے جنوب مشرق میں صوبہ غازی عنتاب میں ہوا۔
صوبائی گورنر نے کہا کہ یہ دھماکا ’’دہشت گرد حملہ‘‘ ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ خودکش بمبار کی کارروائی تھی۔
شام کی سرحد کی قریب غازی عنتاب کے علاقے میں اس سے قبل بھی دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔
تاحال کسی نے گروہ نے اس ذمہ داری تو قبول نہیں کی تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس میں گرد جنگجو یا شدت پسند تنظیم داعش ملوث ہو سکتی ہے۔
غازی عنتاب میں کردوں کی اکثریت آباد ہے اور یہ شام کی سرحد سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شادی میں کردوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی اس لیے ایسے خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ اس دھماکے میں ’داعش‘ ملوث ہو سکتی ہے۔
کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کہا ہے کہ شادی کی تقریب میں اُس کے اراکین شریک تھے جب کہ وہاں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
ترکی کو حالیہ مہینوں میں تواتر سے دہشت گرد حملوں کا سامنا رہا۔
رواں ہفتے ہی ترکی میں دو کار بم دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 120 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ ترک حکام نے ان دھماکوں کا الزام کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے باغیوں پر عائد کیا تھا۔
’پی کے کے‘ ترک پولیس اور فوج پر اس سے قبل بھی حملے کرتی رہی ہے، ان میں سے زیادہ تر حملے ملک کے جنوب مشرق میں کردش علاقوں میں ہوئے۔