تحریر: محمد قاسم حمدان ترکی عالم اسلام کا ایک روشن ستارہ اور تیزی سے ترقی کرتا اہم ملک ہے، ترک عوام کا یہ یقین ہے کہ پاکستان اور ترکی دو علیحدہ ملک ھیں لیکن یہاں کی عوام کے دل ایک ہیں۔ ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پاکستانیوں کو بے پناہ عزت دی جاتی ہے۔
حال ہی میں ترکی میں اردو زبان کے حوالے سے صد سالہ تقریبات ھوئیں .جہاں پاکستان سے بہت سے ادیبوں ،شاعروں اور قلمکاروں کو دعوت دی گئی .ترکی کبھی خلافت اسلامیہ کا مرکز اور سپر پاور تھا جس کی سرحدیںاسڑیا اور پولینڈ تک پھیلی ہوئی تھی ۔خلافت کی قبا چاک ہوئی تو مصطفی کمال محدود ترکی کے تخت پر براجمان ہوئے .انہوں نے ترکی کا رشتہ اسلام سے کاٹنے کے لیے ستم کی ہر صنف کو اختیار کیا . ۔معاشی ،سیاسی اور اخلاقی قدروں کی تباہ شدہ عمارت کو عدنان مندریس نے پھر سے استوار کرنا چاہا تو انہیں تخت سے تختہ دار پر پہنچا دیا گیا نجم الدین اربکان کو بھی اسی جرم میں قید وبند اور اقتدار واختیار سے بزور بازو الگ کر دیا گیا۔
اسلامی تشخص کا مثلہ کرنے کے باوجود ترکی اپنے معاشی حالات کو بہتر کرنے کی غرض سے یورپین یونین کی دہلیز پربرسوں ایڑیاں رگڑ تا رہا ۔سیکولرزم اور بے دینی کی آخری حدوں کو چھونے کے باوجود اس کے بدن سے محمد الفاتح کے غیرت وحمیت سے لبریز خون کی بو آتی تھی ۔2002میں الیکشن ھوئے تو نئی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ دیویلپمنٹ پارٹی نے 43فیصد ووٹ حاصل کرتے ھوئے پارلیمنٹ کی 500میں سے 365نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور عرصہ دراز کے بعد پہلی بار کوئی پارٹی کولیشن کے جنجال سے نکل کر ایک مضبوط حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ھوئی ۔چنانچہ 2002 کے بعد اس مرد بیمار کی تشخیص یوں ہوئی کہ اس کی صحت یابی کا واحد حل الہامی نظام حیات میں مضمر ہے۔
Tayyip Erdogan
ان اصولوں کی روشنی میں ماہر طبیب طیب اردگان نے علاج کا بیڑا ٹھایا اور تر کی کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ جو ترکی کبھی یورپین یونین کی چوکھٹ پر قرض کی بھیک مانگا کرتا تھا اب خود قرض دینے لگا ۔ترک عوام نے آق کو کامیابی کی سند جان لیا ۔2007 کے الیکشن میں ملک میں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کی وجہ سے آق ترکوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی ۔آق نے اپنے ووٹوں کی شرح میں بارہ فیصد اضافہ کر لیا اور اس نے 46فیصد ووٹ حاصل کر کے ٣٤١نشستیں جیت لیں جبکہ ری پبلکن پیپلز پارٹی نے 20فیصد اور نیشلسٹ موومنٹ پارٹی نے 14 فیصد ووٹ حاصل کئے ۔قارئین آپ سوچتے ھوں گے کہ 2002میں 43فیصد ووٹ لیکر آق نے 365 نشستیں حاصل کیں اور 2007میں 46فیصد ووٹ ملے تو اس کو پہلے کی نسبت کم یعنی 341نشستیں ملیں ۔دراصل ترکی اور پاکستان میں اس حوالے سے طریق کار مختلف ھے ۔ترکی میں عام انتخابات کے موقع پر ووٹ امیدوار کو نہیں بلکہ پارٹی کو ڈالے جاتے ہیںاور پھر پارٹی کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے اسے امیدواروں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور یوں پارٹی کے منتخب اراکین کی تعداد سامنے آتی ہے۔
ترکی میں بیلٹ پیپر پر امیدوار کا نہیں بلکہ پارٹی کا نام اور نشان ھوتا ہے ۔ان انتخابات کی اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی پارٹی 10فیصد سے کم ووٹ لیتی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہو سکتی اور اس کی 80 فیصد نشستیں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی کو اور 20فیصد دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کو ملتی ہیں ۔یہ بہت عمدہ طریقہ ہے ،پاکستان میں بھی اگر اس طریقہ کو اپنا لیا جائے تو کم از کم شخصیات ،برادری ازم اور وڈیرہ شاھی سے نجات ملے گی کیونکہ پھر فوقیت پارٹی اور منشور کو ہوگی ۔آق پارٹی نے اخلاص ،محبت ،حب الوطنی کے سبب بلدیاتی انتخابات میں بھی تمام شہروں میں اپنی حاکمیت قائم کی ہوئی ہے ۔2007کے ریفرنڈم جسمیں صدر اورپارلیمنٹ کی مدت کا نئے سرے سے تعین کیاگیا اسمیں آق پارٹی نے ایک اور ریکارڈ قائم کرتے ہوئے 68فیصد سے کامیابی حاصل کی ۔2010میں آئینی اصلاحاتی پیکج کا مرحلہ پیش آیا تو یہاں 57 فیصد سے طیب اردگان نے آئین میں ترامیم کا سہرا اپنے سر باندھا۔2011میں پھر عام انتخاب ہوئے تو اس دفعہ بھی سیکولر قوتیں ریت کی دیوار کی مانند ڈھ گئی اور آق نے 49فیصد کے ساتھ میدان مار لیا 7جون 2015کے انتخاب اس لحاظ سے اہمیت کے حامل تھے کہ آق ملک میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام لانا چاہتی تھی۔
Turkey Election
طیب اردگان جنھوں نے 2014 میں 51 فیصد ووٹ لیکر صدارت کا منصب سنبھالا تھا ۔اس ملک کو ترقی کی معراج پر پہنچانیکے لئے ترک عوام زمام کار اردگان کے حوالے کرنا چاہتی تھی ۔عوام نے ٧ جون کو حکمرانی کا حق تو آق کو دیا لیکن صدارتی نظام کو مسترد کر دیا جس کی وجہ سے آق 258 نشستیں لے پائی اسے 41 فیصد کے باوجود سادہ اکژیت بھی نہ ملی کیونکہ دیگر تین پارٹیاں بھی اس دفعہ 10 فیصد سے زیادہ ووٹ لیکر پارلیمنٹ میں داخل ھونے میں کامیاب ھو گئیں۔اس دفعہ حیرت انگیز تبدیلی یہ ہوئی کہ کرد جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی mhp کے 13.1فیصد ووٹ تھے جن کے ساتھ نہ صرف وہ پارلیمنٹ کا حصہ بنی بلکہ آق کی بہت سی نشستیں اسے مل گئی ۔الیکشن کے بعدبہت سے رازوں سے پردہ اٹھا ھے ایک راز یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے ووٹروں نے آق کی کلی اکثریت روکنے کے لئے کرد پارٹی کو ووٹ ڈالے ۔جون میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ اتحاد کا مظاہرہ کرتیں اور 60فیصد اکثریت سے آق کو عاق کر دیتیں مگر اس اتحاد کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹی جو سپیکر کے انتخاب تک بھی جاری نہ رہ سکا ۔اس کی ایک وجہ اپوزیشن کا نظریاتی اعتبار سے اگ اور پانی ہونا ہے ہر ایک کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ ہے قومیت پسند پارٹی نیشلسٹ موومنٹ mhpکردوں کی قومیت کو تسلیم نہیں کرتی ۔1925سے لیکر ٢٠٠٢ تک کردوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے۔
سیکولرزم کے مہاتماؤں نے کردوں کو محبت سے رام کرنے کی بجائے شدید بمباری سے دبانے کی پوری کوشش کی ۔آق کے دور اقتدار سے پہلے کردی زبان میں کھلے عام بات کرنا ،شاعری ،اشاعت ونشریات کا سوچنا بھی ممکن نہ تھا ۔سرکاری اداروں میں کردی زبان میں بات کرنے کا سوال ھی پیدا نہ ہوتا تھا اگر کسی کرد سے جرم سر زد ہو گیا اور اسے سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا تو اسے جیل میں ملنے کے لئے آنے والے والدین صرف اسی صورت میں مل سکتے اگر وہ ترکی زبان بول سکتے ہوں ۔آق پارٹی نے ان پابندیوں کو ختم کر ا نے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔قومیت پسند جماعتوں کی شدید مخالفتوں کے باوجود کردوں کے جتنے مسائل حل ہوئے اس سے قبل ان کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہ تھا ۔موجودہ ترکی کے اتاترک اردگان نے کہا ہمیں کردوں کے مسئلے کو حل کرنیکے لئے کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے ہم اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کر دیں گے۔
آق حکومت اور دہشت گرد پی کے کے،کے درمیان فائر بندی کے معاہدے بھی ہوے اور کردوں کی جماعت کو پہلی بار پارلیمنٹ میں داخلے کا موقع بھی ملا ۔جون کے انتخابات میں جب اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھ سکا تو آخری حل نئے الیکشن تجویز ہوئے ۔چنانچہ یکم نومبر کو ترکی میں پھر سے میدان سجے گا اس دفعہ آق فی الوقت صدارتی نظام کے بارے خاموش ہے ۔اگر وہ 367سے زاہد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ھوتی ہے تو اس کے لئے پارلیمنٹ کے ذریعے ملکی آئین میں تبدیلی کرتے ہوے صدارتی نظام کو متعارف کرانے کی راہ ہموار ہو جائے گی اور اگر وہ 367 سے کم اور 335 سے زیادہ نشستیں لیتی ہے تو اسے ریفرنڈم کرانا ہو گا بصورت دیگر اسے پارلیمانی نظام پر اکتفا کرنا ہو گا اب تک دس فرموں کے سروے ہوئے ھیں اگر یہ پاکستانی سروے نہیں تو پھر آق کو 48فیصد ووٹ ملیں گے ۔آق بھی مخلوط حکومت کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی اس لئے وہ احتیاط سے آگے بڑھ رہی ھے ۔ اردگان کی پارٹی اگرچہ اس وقت گرداب میں پھنسی ہوئی ہے بد قسمتی سے اسے بھی pkkکی صورت میں ایک ttp کا سامنا ہے ۔داعش کا شر بھی اس کی سرحدوں سے ٹکرا رہا ہے۔
Election in Turkey
آق نے کردوں کو بہت کچھ دیا ہے لیکن انہوں نے ڈومور کو عادت بنا لیا اس وقت pkkدہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے ۔نو اکتوبر کی ریلی بھی اس کے لئے ایک امتحان تھی اس سے قبل جون میں بھی اسی طرح کے دھماکے ہوے جن سے آق کو خاصا نقصان ہوا اب تو گویا ایک قیامت بپا ہوئی ۔لیبر پیس اینڈ ڈیموکریٹک ریلی کا اہتمام مختلف این جی اوز اور کرد ڈیموکریٹک کے اشتراک سے ہوا تھا یہاں جو کچھ ہوا اس کے پیچھے پی کے کے اور داعش کا نام لیا جارہا ہے ۔ داعش بھی آے روز دھمکیاں دیتی ہے ۔ ترک حکومت نے اسوقت 30لاکھ شامی مہاجرین کا بوجھ بھی اٹھا رکھا ہے اس کے باوجود اس نے ترکی کو منجدھار سے نکالنے کے لئے انتخاب کی راہ کو چنا ۔آق نے اپنا جو انتخابی ترانہ ترتیب دیا اس کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے ۔ ری پبلکن پارٹی سیکولر ہونے کے ناطے بسم اللہ سے شروع ہونے والی ہر چیز سے بدکتی ہے اس نے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال کر اس ترانے پر پابندی لگوا دی ہے اس کا فاہدہ بھی آق پارٹی ضرور اٹھائے گی ۔اردگان کے ناقدین،عالمی مبصرین سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ آق کلین سویپ اگر نہیں کرتی تو اس کا ووٹ بینک پہلے سے کافی بڑھے گا ۔اس وقت ترکی دہشت گردی سمیت جن مصائب میں پھنسا ہوا ہے اسے ان طوفانوں سے بحفاظت نکالنے کی اگر کوئی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ طیب اردگان اور ان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی ہی ہے۔