شام (جیوڈیسک) شام میں حزب مخالف کے باغیوں کے تعاون سے ترک ٹینک سرحد پار کر کے شمالی شام میں داخل ہو گئے اور 2014ء سے شدت پسند گروپ داعش کے زیر تسلط علاقے جرابلس پر قبضہ بحال کروا لیا۔
سلطان مراد باغی گروپ کے کمانڈر احمد عثمان نے اعلان کیا کہ “جرابلس کو مکمل طور پر آزاد کروا لیا گیا ہے۔”
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے بھی قبضہ بحال ہونے کی تصدیق کی ہے۔ برطانیہ میں قائم تنظیم سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا تھا کہ داعش کے جنگجووں کی طرف سے “بہت کم مزاحمت” دیکھنے میں آئی اور وہ قریبی دیہاتوں کی طرف فرار ہو گئے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ دو سال قبل عراق و شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کر کے وہاں خلافت کا اعلان کرنے والا داعش اپنے زیر تسلط علاقے پر ہونے والے کسی حملے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی وہاں سے پسپا ہوا۔
انقرہ کا کہنا تھا کہ اس سریع حملے کا مقصد سرحدی علاقے سے داعش کے شدت پسندوں اور شامی کردوں سے پاک کرنا تھا۔ شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران یہ ترکی کی طرف سے پہلی قابل ذکر مداخلت تھی۔
اس کارروائی میں امریکی لڑاکا طیاروں نے بھی ترک اور شامی باغی فورسز کو فضائی حملوں سے مدد فراہم کی۔
شامی باغی فورسز کے تقریباً 1500 جنگجو اس کارروائی میں شامل تھے۔ ترکی کے توپ خانے نے داعش کے اہداف پر گولہ باری شروع کی اور ساتھ ہی ترک اور امریکی لڑاکا طیاروں نے بھی جرابلس کے قریب داعش کے مضبوط ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کہتے ہیں کہ یہ کارروائی ترکی میں ہونے والے سلسلہ وار حملوں کے ردعمل میں کی گئی جن میں گزشتہ ہفتے سرحد کے قریب کردوں کی ایک شادی کی تقریب پر ہونے والا حملہ بھی شامل تھا جس میں 54 افراد مارے گئے تھے۔