انقرہ (جیوڈیسک) ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران اب تک کم از کم 90 افراد ہلاک اور 1100 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ بغاوت کا حصہ بننے والے 1500 فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔
فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔
صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔ ترکی کے ریسرچر مائیکل روبن کا کہنا ہے ’کیا بغاوت ناگزیر تھی؟ نہیں۔ لیکن جنھوں نے بغاوت کی ان کا سوچنا یہ تھا کہ وہ ترکی کو عوام سے دور اور نظریاتی لیڈرشپ سے بچا رہے ہیں۔ اردوغان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ترک عوام کے لیے حکومت کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انھوں نے معیشت کو بہتر کرنے کا وعدہ کیا لیکن بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے، کرنسی غیر مستحکم ہے۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں امن لائیں گے لیکن ان کی جارحانہ پالیسیوں نے ترکی کو مشرق وسطیٰ میں تنہا کر دیا اور مغرب سے تعلقات خراب کیے اردوغان نہ سکیورٹی کا وعدہ کیا لیکن ترک عوام کا خیال ہے کہ حالیہ دھماکے محض شروعات ہیں۔ دوسری جانب بغاوت کرنے والوں کا شاید خیال تھا کہ اردوغان اپنے آپ کو مستحک کر رہے ہیں اور یہ ان کے پاس آخری موقع ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔‘
Turkey Nation
ترکی میں موجود صحافی ایلو سکوٹ نے ایک پیغام ٹویٹ کیا ہے جو ان کے بقول صدر طیب اردوغان نے لوگوں کو بھیجا تھا۔ اس پیغام میں صدر نے عوام سے حکومت کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی۔ عوام اس وقت سڑکوں پر آئی جب صدر اردوغان نے ٹی وی پر لوگوں سے حمایت کی اپیل کی۔ ’لوگ مرکزی سکوائر کی جانب روانہ ہو گئے اور ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے سامنے آئے اور پھر خونریزی ہوئی۔‘
’اس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ عوام اور فوج کے درمیان گہرے روابط ہیں یا کم از کم کل رات تک تھے۔ اسی لیے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب فوج نے لوگوں پر فائرنگ کی۔‘ ترکی کی ریاستی خبر رساں ایجنسی اناتولو کے مطابق فوجی بغاوت میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 90 ہو گئی ہے جبکہ 1154 زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
ترکی کی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملٹری پولیس کمانڈ میں جھڑپوں کے دوران16 باغی فوجیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اناتولو کے مطابق ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں 200 غیر مسلح فوجیوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیا۔