روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے دھمکی آمیز لہجے میں ترکی کو شام کی فضائی حدود میں اپنے لڑاکا طیارے بھیجنے کا چیلنج دیا ہے۔
سالانہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیوٹن نے کہا کہ ترکی نے بغیر وجہ کے روس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ ان کی مراد ترک فضائیہ کی جانب سے گذشتہ مہینے شامی فضائی حدود میں روس کا سخوئی طرز کا لڑاکا جہاز مار گرانے سے تھی۔
روسی صدر نے ترکی کی موجودہ حکومت اور ماسکو کے درمیان متذکرہ تنازع پر مصالحت کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ نے روسی جہاز گرانے کے بعد سے ابتک کرملین سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا۔
شام کے حوالے سے ولادیمیر پیوٹن نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘کسی غیر ملکی طاقت کو شام میں حکمرانی کی اجازت نہیں دیں گے، ہمارا نقطہ نظر تبدیل نہیں ہوا۔”
انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ جب تک شامی فوج کی کارروائیاں جاری ہیں، ان کا ملک دمشق کی حمایت کرتا رہے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ روس کو شام میں مستقل فوجی اڈوں کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عراق اور شام میں بڑا مسئلہ تیل کی تجارت ہے۔ پیوٹن کے بقول ان ملکون میں اسلامی انتہا پسند کا معاملہ ثانوی اہمیت کا حامل ہے۔ مسٹر پیوٹن نے کہا کہ ان کا ملک سیکیورٹی کونسل میں شام کے معاملے پر قرارداد کے حوالے سے امریکی اقدام کی تائید کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قرارداد کا مسودہ کلی طور پر قابل قبول ہے۔
ولادیمیر پیوٹن نے شامی بحران سے متعلق تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ معاہدے تک پہنچنے کے لئے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر میں تبدیلی لائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک شامی صدر بشار الاسد کی فوجیں لڑائی میں مصروف ہیں، روس اس وقت تک اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ماسکو کو شام میں مستقل فوجی اڈے کی ضرورت ہے کیونکہ روس کے پاس ایسا کاری اسلحہ موجود ہے کہ جس سے وہ اپنی سرحد سے ہزاروں کلومیٹر دور بھی ‘کسی کو بھی نشانہ’ بنا سکتا ہے۔