اسلام آباد (جیوڈیسک) پاک ترک انٹرنیشنل اسکول و کالجوں سے وابستہ ترک اساتذہ کو 20 نومبر تک پاکستان چھوڑنا کا کہا گیا ہے لیکن یہ اساتذہ اپنے ملک واپس جانے سے خوفزدہ ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ 15 سال سے پڑھانے والے ایک ترک استاد جنہوں نے اپنا نام علی ظاہر بتایا کا کہنا تھا کہ پاکستان اُن کے لیے دوسرا وطن ہے۔
’’پاکستان میرا دوسرا ملک ہے اور میں یہاں رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری غلطی کیا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ میں بہت پریشان ہوں کہ اب کیا کروں ’’میرے چار بچے اور فیملی ہے اور میرے بچے مجھ سے روز پوچھتے ہیں کہ ہم یہاں سے کیوں جا رہا ہے۔ ہم نے پاکستانی بچوں کو پڑھانے کے علاوہ کیا غلط کام کیا ہے۔۔ ہم اپنے بچوں کو اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ ہم نے غلط ہے۔‘‘
ترک استاد علی کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ ترکی میں اُن کے ساتھ کیا ہو گا، کیوں کہ ’’وہاں ایمرجنسی قوانین نافذ ہیں اور ہم واپس ترکی جانے سے خوفزدہ ہیں، کیوں کہ ہمیں یقین نہیں کہ ہم وہاں محفوظ ہوں گے۔‘‘
پاکستان میں قائم پاک ترک اسکولوں میں 108 ترک استاد ہیں، جب کہ اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ترک اساتذہ، انتظامیہ اور اُن کے اہل خانہ کی مجموعی تعداد لگ بھگ 450 بنتی ہے۔
پاکستان میں دو دہائیوں سے زائد عرصے سے قائم پاک ترک اسکولز اور کالجوں کے نیٹ ورک کو فتح اللہ گولن کی تنظیم سے وابستہ قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن پاکستان میں اس تعلیمی ادارے کی انتظامیہ اس کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ اُن کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ترکی کی حکومت کا یہ بھی الزام رہا ہے جولائی میں رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی کوشش میں فتح اللہ گولن بھی شامل تھے۔
تاہم ترک مبلغ فتح اللہ گولن ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اُن کا ایسی کسی کوشش سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
اس تعلیمی ادارے میں لگ بھگ 11 ہزار پاکستانی طالب علم زیر تعلیم ہیں۔اسلام آباد میں واقع نیشنل پریس کلب میں پاک ترک اسکول طالب علموں اور اُن کے والدین نے جمعہ کو احتجاج کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت ترک اساتذہ کو واپس بھیجنا کسی طور مناسب نہیں۔ پاک ترک اسکول کے طالب علموں کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے اساتذہ کو اس طرح واپس بھیجا جائے۔
اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعہ کو نیوز بریفنگ میں حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اسکول معمول کے مطابق چلتے رہیں گے اور اُن میں زیر تعلیم طالب علموں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔