واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کے سربراہ کے اکاؤنٹ سے نسل پرستانہ اور اشتعال انگیز ٹوئيٹس کیے گئے اور ايک ایسا پيغام بھی ری ٹوئيٹ کیا گیا، جس میں نازی جرمنی کی حمایت کی گئی تھی۔
مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کے سربراہ جیک ڈورسی کا اکاؤنٹ ہیک ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کے ڈیجیٹل ڈیٹا کے محفوظ ہونے کے بارے میں تحفظات شدید تر ہو گئے ہيں۔
ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جیک ڈورسی کا اکاؤنٹ ہیک کر لیا گیا اور ہیکر نے اس اکاؤنٹ سے متعدد نسل پرستانہ اور اشتعال انگیز ٹوئيٹس کیے۔ اس پیش رفت سے شوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی اور یہ سوال دوبارہ زیر بحث آ گیا ہے کہ آیا ان صارفین کا ڈیجیٹل ڈیٹا محفوظ ہے؟
جمعے کے دن ٹوئٹر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس کے سربراہ جیک ڈورسی کا اکاؤنٹ ‘بظاہر‘ ہیک کیا گیا اور اس سے غلط قسم کے ٹوئيٹس اور ری ٹوئیٹس کیے گئے۔ ان میں ایک ایسی ری ٹوئيٹ بھی شامل ہے، جس میں نازی جرمنی کی حمایت کی گئی تھی۔
ان میں سے کئی ٹوئيٹس تیس منٹ تک ان کے اکاؤنٹ پر دکھائی دیے، جس کے بعد کمپنی نے ڈورسی کے ٹوئٹر ہینڈل پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے انہیں ڈیلیٹ کر دیا۔
ٹوئٹر کے بیان کے مطابق کمپنی جانتی ہے کہ کیا ہوا ہے اور اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ صرف ان کے اکاؤنٹ کو ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن ٹوئٹر کمپنی کا ڈیٹا محفوظ ہے اور کنٹرول میں ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ٹوئٹر کے سربراہ جیک ڈورسی کے فالوورز کی تعداد چالیس لاکھ سے زائد ہے اور ان کے اکاؤنٹ کو محفوظ ترین قرار دیا جاتا تھا۔
جیک ڈورسی کے اکاؤنٹ کو تقریباً تیس منٹ تک ہیک کیے جانے کے بعد یہ سوال زیر بحث آ گیا ہے کہ صارفین کی ڈیٹا سکیورٹی محفوظ ہاتھوں میں ہے یا نہیں۔ کئی حلقوں نے کہا ہے کہ اگر یہ کمپنی اپنے سی ای او کو ڈیجیٹل سکیورٹی فراہم نہیں کر سکی تو عام صارفین کا کیا ہو گا۔ یہ ابھی معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا جیک ڈورسی کی ذاتی لاپرواہی کی وجہ سے ان کا اکاؤنٹ ہیک ہوا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب ٹوئٹر اور ڈورسی نے وعدہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو اور مباحث کو بہتر بنايا جائے گا تاکہ اس ڈیجیٹل دنیا میں ‘نفرت انگیزی اور زیادتیوں‘ کے خلاف مناسب اور ٹھوس کریک ڈاؤن کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ جیک ڈورسی کا اکاؤنٹ سن دو ہزار سولہ میں بھی ہیک کیا گیا تھا۔ تب OurMine نامی ایک ہیکر گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس گروپ نے فیس بک کے بانی مارک زوکر برگ سمیت کئی سوشل میڈیا لیڈرز اور اہم شخصیات کے اکاؤنٹس پر بھی حملے کیے تھے۔