کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے کہا ہے کہ آزادی اظہار کی دعویدار ویب سائیٹ ٹوئٹر نے بھارتی شکایات پر بے شمار کشمیری اکاؤنٹ بند کر دیے۔
صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم سی پی جے نے ٹوئٹر پر الزام لگایا کہ اس نے بھارتی حکومت کی سینسرشپ پالیسی کے تحت کشمیر سے متعلق قریب دس لاکھ ٹویٹس کو سائیٹ سے ہٹایا۔ ٹوئٹر پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے ایک سو کے لگ بھگ اکاؤنٹس کی مقامی لوگوں تک رسائی پر قدغن لگائی۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر دنیا میں آزادی اظہار کی دعویدار ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خطرہ سمجھنے والی حکومتوں کی طرف سے ٹوئٹر پر دباؤ بڑھتا گیا ہے کہ وہ سینسرشپ کے مقامی قوانین کی پاسداری کرے ورنہ اسے بند کر دیا جائے گا۔
سی پی جے کی ایک تحقیق کے مطابق بھارتی حکومت کی طرف سے ٹوئٹر پر بعض ٹویٹس ہٹانے یا اکاؤنٹس بند کرنےکا دباؤ بڑھتا گیا ہے اور اس سلسلے میں اگست دو ہزار سترہ میں کمپنی کو بھیجے جانے والے قانونی نوٹسز کی تعداد اپنے عروج پر جا پہنچی تھی۔
سی پی جے کے مطابق ٹوئٹر نے تب سے بھارتی حکومت کی شکایات پر کشمیر کے حوالے سے نو لاکھ بیس ہزار ٹویٹس کو اپنی سائیٹ سے ہٹا دیا۔
ٹوئٹر کا اصرار رہا ہے کہ وہ اظہار کی آزادی کے بنیادی جمہوری حق پر سودے بازی نہیں کرتی لیکن مختلف ملکوں کے اپنے قوانین ہوتے ہیں جنہیں کمپنی نظر انداز نہیں کر سکتی۔
حالیہ برسوں میں پاکستان اور بھارت میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر سینسرشپ کی شکایت بڑھی ہیں۔
اقوام متحدہ کے آزادی اظہار سے متعلق خصوصی ایلچی ڈیوڈ کے کے مطابق کشمیری صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے ٹوئٹر معلومات کی ترسیل کے لیے اہم ذریعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نے اس پلیٹ فارم کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا ہے۔
ڈیوڈ کے پہلے بھی ٹوئٹر کی طرف سے کشمیر سے متعلق مواد ہٹانے یا مبینہ طور پر سینسر کرنے پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔
پچھلے سال انہوں نے کمپنی کے سربراہ جیک ڈورسی کو باقاعدہ خط لکھ کر اُن پر زور دیا تھا کہ انہیں بھارتی سینسرشپ کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے اُسے چیلنج کرنا چاہیئے۔