اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے راولپنڈی اسلام آباد کی تمام عدالتوں میں 48 گھنٹوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم جاری کر دیا ہے، ایف ایٹ کچہری حملہ کے ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے تفصیلات طلب کی ہیں کہ حملے کے وقت کچہری میں کتنے اہلکار تعینات تھے اور ان میں سے کتنے مسلح تھے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ایف ایٹ کچہری حملہ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سیکرٹری داخلہ نے ایف ایٹ واقعہ کی تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ رپورٹ کیمطابق ایف ایٹ کچہری میں 66 پولیس اہلکارتعینات ہوتے ہیں، کیا آپ نے چیک کیا کہ گزشتہ روز کتنے اہلکار تھے، سیکریٹری داخلہ ڈاکٹر شاہد نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ روز پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات تھے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے اہلکار مسلح تھے، سیکریٹری داخلہ نے کہاکہ یہ معلوم نہیں کہ کتنے مسلح تھے، 2 اہلکاروں نے اسلحہ استعمال کیا، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلحہ استعمال ہوا، نہ کوئی حملہ آور زخمی ہوا، نہ کوئی پکڑا گیا ، پہلے اپنے آئی جی سے پوچھیں کہ کل کتنے اہلکار مسلح تھے، چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ سے کہا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام آباد دہشت گردوں کے ٹارگٹ پر ہے، ایف ایٹ کچہری میں ایک بھی سی سی ٹی وی کیمرہ موجود نہیں تھا، کوئی ایک بھی سیکورٹی گیٹ کام نہیں کررہا تھا، سیکریٹری داخلہ نے بتایاکہ قریبی تھانے نے 7 سے 10 منٹ میں اہلکار بھیج دیئے تھے۔
جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ اگر اہلکار سات منٹ میں پہنچتے تو اتنی تباہی نہ ہوتی،اخبارات بھرے پڑے ہیں کہ پولیس 45 منٹ بعد پہنچی، ٹی وی پر تباہی کے ایسے مناظر دیکھے کہ کسی بھی شخص کا دل دہل جائے، صاف صاف بتائیں کہ حملہ آور کتنے تھے، چیف جسٹس نے راولپنڈی اسلام آباد کی تمام عدالتوں میں 48 گھنٹوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم جاری کرتے ہوئے پیر تک تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آئندہ سماعت پر بتایا جائے کہ کتنے اہلکار تعینات، کتنے مسلح تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کی وردی عوام کے ٹیکس سے بنتی ہے، اگر وردی عوام کو تحفظ نہیں دے گی تو کون دے گا۔