آج کل دو بہنوں کی جعلی ڈگریوں کے چرچے زبان زدِ عام ہیں۔ ایسے ہی چرچے ان بہنوں کی سیاسی مخالفت اور جائیداد تنازعہ کے حوالے سے بھی ہو رہے ہیں، بلکہ سیاسی مخالفت نے جنم ہی جائیداد کے تنازعے سے لیا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بات عائلہ ملک اور سمیرا ملک کی ہو رہی ہے۔ یہ دونوں بہنیں نواب آف کالاباغ امیر محمد خان کی پوتیاں، ملک اللہ یار خان کی بیٹیاں اور سابق صدر فاروق لغاری کی بھانجیاں ہیں۔ سمیرا ملک اور عائلہ ملک دونوں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں فاروق لغاری کی ملت پارٹی کے پلیٹ فارم سے سامنے آئیں تاہم ”شہر کی دلدل” میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے رستے تلاش کیے۔
ملت پارٹی بعد ازاں مسلم لیگ (ق) میں ضم ہو گئی اور پھر جلد ہی دونوں بہنیں قاف لیگ کی طرف سے رکن اسمبلی بنا دی گئیں۔ بڑی بہن سمیرا ملک ”وزیر” بن گئیں جبکہ چھوٹی بہن عائلہ ملک وزیر تو نہ بن سکیں۔
البتہ اپنے حسن و جمال کا جادو جگا کر اُس وقت کے حکومتی وزیر سردار یار محمد رند کی ”بیوی” ضرور بن گئیں۔ قبائلی روایات کے مطابق سردار یار محمد رند نے عائلہ ملک کو گھر کی چار دیواری تک محدود رکھا اور انہیں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شریک ہونے کی اجازت نہ تھی مگر حکومت کے ختم ہوتے ہی یہ ”بندھن” بھی ختم ہو گیا۔
یادش بخیر سردار یار محمد رند کے والد نے بھی اپنے وقت کی مقبول ترین اداکارہ شمیم آراء سے شادی کی تھی لیکن تمام تر کوشش اور خواہش کے باوجود انہیں اپنی روایات کے بندھن میں نہ باندھ سکے اور شمیم آراء کی شادی بھی ان کی وزارت کے خاتمے کے ساتھ ختم ہو گئی تھی۔
اتفاق سے یہ دونوں بہنیں پرویز مشرف کی ”مشیرِ خاص” بھی رہیں تاہم اس اتفاق کو جائیداد کی ایسی نظر لگ گئی کہ ایک نے مسلم لیگ (ن)اور دوسری نے تحریکِ انصاف کا پرچم تھام لیا۔ اب دونوں کے درمیان وراثتی زمین حاصل کرنے کا مقابلہ زوروں پر ہے۔
National Assembly
اس سے قبل اسمبلی کی رکنیت کے لیے مقابلہ بھی زوروں پر تھا تاہم ایک بہن اسمبلی میں پہنچ کر جعلی ڈگری رکھنے کے جرم میں تاحیات ”نااہل” ہو گئیں اور دوسری الیکشن سے پہلے ہی جعلی تعلیمی اسناد کی بناء پر”نااہل” قرار پائیں۔ عائلہ ملک حالیہ ضمنی انتخابات میں میانوالی سے تحریکِ انصاف کی اْمیدوار تھیں۔
کہتے ہیں کہ اُن کے مخالف اُمیدوار کو جعلی تعلیمی اسناد کے بارے میں ”گھر کے بھیدی” نے ہی باخبر کیا تھا اور یہ بھیدی مبینہ طور پر ”سگی بہن” ہی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عائلہ ملک کی نااہلی سے بہت پہلے سمیرا ملک کی ڈگری پر بھی اعتراضات اُٹھے مگر سول جج، پنجاب یونیورسٹی اور الیکشن ٹربیونل لاہور اس ڈگری کو اصلی قرار دے چکے تھے۔
معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا جہاں نون لیگ کی ”قانون ساز” قانونی جنگ ہار گئیں اور نہ صرف ان کی سابقہ اور موجودہ کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار پایا، بلکہ ان کی سیاست پر بھی ”تاحیات پابندی” لگ گئی۔
کہتے ہیں دونوں بہنوں نے ذاتی اور سیاسی چپقلش کی وجہ سے خود ہی ایک دوسرے کا بھانڈا پھوڑا ورنہ سول جج، پنجاب یونیورسٹی اور الیکشن ٹربیونل لاہور کی ”کلیئرنس” کے بعد سے سمیرا ملک کافی مطمئن دکھائی دیتی تھیں اور اسی بناء پر ضمنی انتخاب بھی لڑا۔ دونوں بہنیں سیاسی منظر پر پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوئی تھیں اور پھر ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ”کے مصداق سیاسی حوالوں سے غروب بھی ہو گئیں۔