تحریر : واجد علی ذائقے کے اعتبار سے کالموں کودو اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک قسم تو وہ ہے جس میں بارہ مصالحوں کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے اور قاری صرف زبان کے چٹخارے کی غرض سے کالم پڑھتا ہے ایسے کالموں میں چٹکلے، لطائف اور حیرت انگیز واقعات سے قاری کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ایسے کالم روح سے خالی ہوتے ہیں اور ان کا اثر وقتی اور عارضی ہوتا ہے۔دوسری قسم ان کالموں کی ہے جو مدتوں تک ذہن پر اثر انداز رہتے ہیں ان کالموں میں مقصدیت کو اوّلیت دی جاتی ہے اور یہ قاری کو سوچنے پر مجبو ر کرتے ہیں۔ان کالموں میں لفاظی کی بجائے سادہ پیرائے میں کالم کار مقصدیت سے بھرپور بات کرتا ہے اور ایسے کالم تاریخ کا حصہ بنتے ہیں اور تحقیق میں معاونت کرتے ہیں۔ کالم نگار ہی ریاست کی حقیقی تصویر کو عوام کے سامنے لاتا ہے وہ معاشرے کے لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔میں انور گریوال کو دوسری قسم کے کالم کاروں میں شمار کرتا ہوں۔
بہاولپور کی سرزمین ماضی میں علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے اور تاحال علمی،ادبی اور صحافتی سرگرمیو ں کا مرکز ہے۔میری ایک بڑی خامی یہ ہے کہ میں ایک خلوت پسند آدمی ہوں۔ میرا تقریبات میں آنا جانا بہت کم ہوتا ہے۔فکر معاش سے جو فراغت کی گھڑیاں بچتی ہیں وہ گھر والوں کو دینا پسند کرتا ہوں۔یہی وجہ ہے کہ کسی تقریب میں مجھے شریک ہونا پڑے تو شرکاء محفل اور ہم ایک دوسرے سے تقریباً اجنبی ہی رہتے ہیں۔ انور گریوال سے بھی اجنبیت برقرار رہتی مگر بھلا کو جاوید چوہدری کا جن کے وسیلے سے میری ملاقات موصوف سے ہوئی ۔ملاقات پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ خوش خیال لکھاری اور کالم نگار ہی نہیں بلکہ مہمان نواز طبیعت کے مالک بھی ہیں۔پھر یوں ہوا کہ ہم اپنی مصروفیات میں گھرے رہے اور ایک عرصہ تک ان سے ملاقات کا کوئی بہانہ نہ بنا۔ چند دن قبل ان کی کال آئی اور حکم ملا کہ ملک حبیب اللہ بھٹہ کے دولت خانے پر حاضری دیں۔حاضری پر میں ان کی کتاب ”باد صحرا” سے فیض یاب ہوا۔ بات ہو رہی تھی بہاولپور میں علمی،ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کی۔یہاں کئی فورم اور تنظیمیں زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں ان میں چولستان فورم،ادبی بیٹھک شعور،کتھارسس آرٹس فورم،بزم ثقافت پاکستان اور شہاب اکیڈمی شامل ہیں۔حال ہی میں پندرہ روزہ حقیقت نے بزم حقیقت کے تحت ایک خوب صورت نشست کا اہتمام کیا ہے۔ اس بزم میں صرف ان لکھاریوں اور کالم نگاروں کو مدعو کیا جاتا ہے جو باقاعدہ حقیقت کے لیے لکھتے ہیں۔
اس وقت میرے زیر نظر ”باد صحرا” ہے جو انور گریوال کے منتخب کالموں کا مجموعہ ہے۔یہ کالم انہوں نے 2001 سے 2008 میں روزنامہ” انصاف ”لاہور کے لئے تحریر کیے۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ انور گریوال اپنا رانجھا راضی کرنے کے لیے قلم کاری کرتے ہیں مگر ” باد صحرا” کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے کالم کئی ہیروں کو راضی کرنے کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔224 صفحات اور 70 کالموں پر مشتمل اس خوبصورت کتاب کو ”علم و عرفان پبلشر” لاہور نے شائع کیا ہے۔مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے۔خوبصورت اور دیدہ زیب سرورق نے کتاب کو چاند لگا دیے ہیں۔ کتاب کے اکثر کالم قاری کے ادبی ذوق کو مہمیز کرتے نظر آتے ہیں۔ بہ طور خاص ”توند بردار پولیس اہلکار”،” پاکستانی کتے بمقابلہ غیر ملکی کتے”، ”غریب مکائو مہم”، ”لو ڈ شیڈنگ کے فوائد” اور” بش کے نام ایک درخواست” کا ذکر ناگزیر ہے۔ یہ کالم جہاں ایک طرف زندگی کی تلخ حقیقتوں کا عکس پیش کرتے ہیں وہیں دوسری جانب ان میں پاکستانی معاشرے پر بھرپور طنز بھی ملتا ہے۔ ہم جو خود کو اس مہذب دنیا کے باسی تصور کرتے ہیں، حقیقتاً اپنے نفس کے غلام ہو کر آج بھی اسی دور میں جی رہے ہیں جہاں اعلیٰ و ادنیٰ کی ظالمانہ تفریق اور انسانی رشتوں کی پامالی عام بات ہے۔
انور گریوال کی کالمانہ صلاحیت کا ماضی کے کالم نگاروں سے موازنہ کیا جائے تو ان کے کالموں میں مجھے چراغ حسن حسرت کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے جو” زمیندار” ، ”شہباز” اور ” امروز”میں سند باد جہازی کے نام سے مزاحیہ کالم لکھتے تھے۔حالیہ کالم نگاروں میں انور گریوال یقینی طور پر گل نوخیز اختر کے ہم رکاب محسوس ہوتے ہیں جو” نئی بات” مین NOخیزیاں کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔میری تجویزہے کہ کتاب میں شامل کالموں میں اگر ہر کالم کے ساتھ تاریخ اور سال اشاعت شائع کیا جاتا تو قاری کو پس منظر سمجھنے میں آسانی ہوتی۔کتاب پر آئی ایس بی اینISBN)) ہوتا تو بہتر تھا۔کتاب میں کمپوزنگ کی اغلاط پر نظر ثانی کی گنجائش باقی ہے۔امید ہے دوسرے ایڈیشن میں میری گزارشات پر ضرور غور ہو گا۔باد صحرا میں شامل ایک کالم”پاکستانی کتے بمقابلہ غیر ملکی کتے”میں انور گریوال لکھتے ہیں:
”جب ہم مغربی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کن خطوط پر چل کر انہوں نے ترقی کی نئی نئی راہیں تلاش کیں اور نئی منازل کا سراغ لگایا۔ان کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ لوگ کتوں سے بہت پیار کرتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بعض اوقات وہ انسانوں پر کتوں کو ترجیح دیتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔پاکستان کے باسیوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مقبول ترین حکمرانوں نے ترقی کے سارے راز پا لئے ہیں۔وہ آہستہ آہستہ تمام ہنر پاکستان پر آزما رہے ہیں ۔روشن خیالی،میراتھن ریس،تنگ نظری کی مخالفت اور کتوں سے پیار وغیرہ جیسے پروگراموں پرعمل درآمد شروع ہو چکا ہے ۔اگر یہ سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی عوام مغربی ممالک کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے ا ن کے بیڈ روم میں بھی کتے ہوں گے ،ان کے دسترخوان پر بھی اور ڈرائنگ روم کے صوفوں پر بھی، غرض ہر جگہ اور ہر وقت کتوں کے ساتھ ہمرکابی ہوگی”۔
میرے نزدیک کتاب شائع کروانا کارِ دراز ہے۔ کالم نگار انور گریوال بجا طور تہنیت و تحسین کے مستحق ہیں۔باد صحرا کے کالموں کو نہایت عمدہ اور چنندہ کہا جاسکتا ہے اور انھیں موضوع کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ان کے کچھ کالم سیاست پر ہیں جن میں حکمرانوں کی خدمت میں گزارشات پیش کی گئی ہیں اور کہیں وہ انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔دوسری قسم کے کالم ہلکے پھلکے مزاحیہ کالم ہیں جن کے موضوعات سماجی نوعیت کے ہیں ۔ان کا یہ کالم غالباً اس دور کا ہے جب چوہدری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ کالم کا عنوان ”پرائس کنٹرول وزارت”ہے:
”پنجاب کے باسیوں کو مبارک ہو کہ ان کے مقبول وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہی نے بعض اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔حکمرانوں کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی کسی نعمت سے کم نہیں ،ہم چوہدری پرویز الہی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے یہ جرات مندانہ اقدام اٹھایا۔اگر وہ یہ مہربانی نہ کرتے تو ہم ان کا کیا کر سکتے تھے”؟
پاکستان میں وزیر مشیر کس طرح قومی خزانے کوذاتی جاگیر سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔باد صحرا کا یہ کالم بعنوان ”یہ وزراء کا حق ہے” دعوت فکر کا حامل ہے:”صوبائی وزیروں کو ٹیلے فون کی سہولت لا محدود ہونے کی وجہ سے وزیروں ،مشیروں کاصرف ٹیلے فون کا بل(ماہ نومبر)گیارہ لاکھ دس ہزار دو سو چودہ روپے ہے اگر دیگر مہینوں میں بھی بل اسی حساب سے آیا تو ایک کروڑ تیس لاکھ سالانہ سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ٹیلے فون کرنے کی دوڑ میں ان وزیروں میں اوّل وزیر زراعت ارشد خان جنہوں نے ماہ نومبر میں 63ہزار 693روپے کے ٹیلے فون کیے۔دوسری پوزیشن وزیر ہائوسنگ علی رضا گیلانی نے حاصل کی۔ان کا بل 62 ہزار368روپے آیااور تیسرے نمبر پر وزیر لٹریسی رہے جنہوں نے 50ہزار597 روپے کے فون کیے”۔
باد صحرا کے کالموں کو پڑھتے ہوئے کہیں بھی اکتاہٹ اور بے زاری کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ہر کالم میں ایک الگ اور جداگانہ نوعیت کا موضوع منتخب کیا گیا ہے پھر اس پر انور گریوال کا انداز بیاںقاری کو پورا کالم پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔باد صحرا کی اشاعت سے انور گریوال صاحب کتاب کالم کاروں کے قبیلے میں شامل ہو گئے ہیں اور ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں۔اللہ پاک انہیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائیں۔