67 ویں آزادی منانے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر غیر ملکی غلامی عرف سرمایہ کاری کے مضر اثرات نمایاں طور پر نظر آنے لگے ہیں۔ انگریزوں سے آزادی چھین کر لینے کے بعد اور آج کا پاکستان امریکی ڈالر کے ہاتھوں نان شبینہ کو محتاج ہونے کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔ (یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ آئے دن میڈیا اور اخبارات کی رپورتوں میں اُجاگر ہو رہا ہے) پاکستانی روپے کی قدر میں روز بروز آنے والی کمی سے متوسط طبقہ کی ترجیحات میں نمایاں تبدیلی ظاہر ہوئی ہے لیکن دولت مندوں پر کچھ زیادہ اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ والے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے ہیں کہ روپیہ زوال کی سمت لڑھکتا جا رہا ہے جبکہ اسے روکنے کی حکومت اوراسٹیٹ بینک کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
چاروں اطراف گھبراہٹ کا عروج ہے جس سے پاکستانی معیشت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ پیٹرول سمیت تمام درآمد ی چیزیں مہنگی ہونے سے مہنگائی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہو چکا ہے۔ ایک طرح سے ملک کے ارباب مہنگائی کو درآمد کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں غیر ملکی سرمایہ واپس جانے کا خطرہ بڑھنے لگا ہے۔ اور ادائیگی توازن کی حالت نازک موڑ پر آ جانے کی وجہ سے پوری معیشت پر عدم استحکام مسلط ہے۔ جس سے اقتصادی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی حال رہا تو کوئی اور ملک تو کیا عالمی مالیاتی بینک (IMF)اور عالمی بینک تک ملک کو قرض دینے سے انکار کر سکتا ہے۔ ملک کو اس شدید معاشی بحران سے نکالنے کا سہرا کس کے سر بندھتا ہے یہ وقت اور حالات ہی بتائے گا مگر اب ارباب اختیار کو سوچنا چاہیئے کہ ملکی معیشت کو کس طرح اُس کے اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔
آج کی حکومت کو اس قدر مینڈیٹ مل چکا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں اور معاشی حکمتِ عملی پر عمل کر کے معیشت کو مستحکم بنا سکتی ہے۔ یو این آئی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں روپئے کی قدر میں مسلسل کمی کے اسباب برآمدات میں کمی، درآمدات میں اضافہ اور شیئر بازار میں گراوٹ کے علاوہ بیرون ملک سرمایہ کاروں کی سرمایہ کشی کا عمل دخل بھی بتایا جاتا ہے۔
الیکشن کے ہنگاموں کے بعد ضمنی الیکشن کا انعقاد، روپے کی گرتی ہوئی قیمت، آج کل ملک کے طول و عرض میں اکثر ہوتے ہوئے عصمت دری کے واقعات، مہنگائی سے بدحال عوام، سہولیات کو ترستے غریب، جھگی جھونپڑی میں بسنے والے لوگ۔ یہ اس وقت ہمارے ملک کا حال ہے۔ روپئے کی گرتی ہوئی قیمت نے اس وقت غریب عوام کو بوکھلا دیا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلہ، روپئے میں گزشتہ چند ماہ میں سب سے بدترین گراوٹ کا عمل جاری ہے۔ ان کو اتنا معلوم ہے کہ روپے کی گراوٹ سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور ڈیزل اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے گھر سے لے کر بچوں کے اسکول اور ٹرانسپورٹ سبھی ضروریات زندگی پر اثر پڑے گا ۔ اناج، آٹا، دالیں، گیہوں سبھی کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ سبزیوں کے دام تو اب بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔ سبھی کچھ اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ اب حقیقت میں غریب عوام بُری طرح پریشانی کے عالم میں ہیں۔
Inflation
رپورٹ کے مطابق ملک میں غربت کا سب سے زیادہ شکار غریب ہی ہے اور جب بھی مہنگائی بڑھتی ہے تو اس کی مار سب سے زیادہ اسی پر پڑتی ہے۔ مہنگائی کا جن جب سے بے قابو ہوا ہے غریب تو غریب اس ملک میں بسنے والے متوسط طبقے کے افراد بھی شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں اور انہیں بھی اپنے سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مہنگائی اور روپے کی گراوٹ یقینا ملک کے غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں کو بری طرح توڑ رہی ہیں اس کا ازالہ کرنا بھی حکومت ہی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
معاشی اصلاحات اور غریبی کا تعلق بیسویں صدی کا وہ تنازعہ ہے جو اکیسویں صدی کو ورثے میں ملا ہے۔ اصلاحات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ” غریبی کا خاتمہ ” ہی ان کا اصل مقصد ہے لیکن پاکستان بھر کے غریبوں اور متوسط طبقوں کی حالت بتاتی ہے کہ یہ بیسویں صدی ہی کا نہیں اکیسویں صدی کا بھی سب سے بڑا جھوٹ ہے جو ااج بھی اُسی بے شرمی کے ساتھ بولا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈھونگ رچایا اسی لیے گیا ہے کہ غریبوں کو دلاسہ دیا جائے، اس کے بعد بے خوف ہو کر غریبی اور غریبوں کا استحصال کیا جا سکے۔ حالانکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ مذکورہ حالاتِ مہنگائی غریبوں کو بھوک مَری کی طرف لے جانے کے لئے کافی ہے۔ جبکہ اب تک مہنگائی، کرپشن، بدعنوانی اور بے ایمانی سے لڑنے کی فکر کسی کو نہیں ہے اور ویسے بھی کرپشن کے رہتے ہوئے ملک سے غریبی دور ہوگی نہ غریبوں کا کوئی بھلا ہوگا۔
اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ آزادی کے 67سال بعد بھی اور اکیسویں صدی میں کروڑوں پاکستانی شہریوں کے لیے سماجی سیاسی اور معاشی انصاف محض ایک خواب ہے۔ تو دوسری طرف جنسی، اخلاقی اور معاشی جرائم میں بے لگام اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ لالچ، ہوس، سود، سٹہ ، جوا، بے ایمانی، بد عنوانی اور کرپشن کا طوفان بذاتِ خود سبب بھی ہے اور نتیجہ بھی۔ فرقہ وارانہ فساد، دہشت گردی، نشانہ وار قتل، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان کے واقعات مرض سے زیادہ علامت ہیں۔ جب تک مرض کی جڑ نہیں کاٹی جائے گی محض شاخوں کو کترنے سے بیمار معاشرہ صحت مند نہیں ہو سکے گا۔
ویسے بھی ہماری قوم مہنگائی، بجلی، عدلیہ، امن عامہ کی وجہ سے مسائل کے گھیرے میں ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں بے روزگاری، مہنگائی اور قتل و غارت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، کیا اب بھی ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
Load Shedding
ہمارے ملک کو اس وقت یکے بعد یگرے بہت سے بحرانوں اور پڑوسی ملک کے حملوں کا سامنا ہے، ڈرون حملے ویسے ہی ہو رہے ہیں، لوڈ شیڈنگ کا بحران اپنی جگہ ساقت نظر آتا ہے، پوری دنیا میں زرعی ملک مشہور ہونے کے باوجود آج ہماری عوام کو کھانے کے لئے آتا میسر نہیں ہے، اور اگر ہے تو غریبوں کی پہنچ سے دور کیونکہ مہنگائی کا سرخ جوڑا آٹے نے بھی پہنا ہوا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
حکومت کا ہر وعدہ یہاں وہاں ہو گیا آٹا، چینی، تیل بہت مہنگا ہو گیا مہینے کا بجٹ سُکڑ کر دو تہائی ہو گیا گزرے گا سال کیسے سمبل اب مائنس ہوگیا
اس مہنگائی کے باعث لاکھوں والدین کے لئے اپنی بیٹیوں کو شادی میں جہیز دینا بھی ناممکن ہو چکا ہے اور اسی تعداد میں ہی غریب اور متوسط طبقے کی لڑکیاں گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ تمام مسائل کے ساتھ ساتھ جہیز جیسی لعنت کا خاتمہ بھی ضروری ہو چکا ہے تا کہ بیٹیوں پر جہیز کی لعنت کا طعنہ چبھن بن کر نہ گرے اور اس کے برے اثرات مرتب نہ ہوں۔ خدا ہمارے ملک پر اور یہاں بسنے والے عوام پر اپنا خاص رحم و کرم فرمائے۔ آمین