آج امریکا اور ایران کی قرابتیں کچھ یوں بڑھ رہی ہیں کہ جہاں اِن کے اِس عمل نے دنیا کو حیرت زدہ کرکے رکھ دیا ہے وہیں امریکا اور ایران کی یوں اچانک مضبوط ہوتیں دوستیاں اور قرابتیں دیکھ کر دنیا طرح طرح کے مخمصوں میں بھی مبتلا ہے اور بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں تو وہیں دنیا یہ بھی سوچنے اور کہنے پر مجبور نظر آتی ہے کہ ایساتو ہوناہی تھا اور آج وہ سب کچھ ویساہی ہو رہا ہے جیساکہ یہ دونوں ممالک ایک خاص وقت گزار کر کرنا چاہتے تھے اور آج یہ دونوں اپنی اُس منصوبہ بندی میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اگرچہ آج اِن دنوں ممالک کایوں قریب آنے سے پہلے والے حالات اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کو یہ سب کچھ ایک خواب لگے گا جب امریکا اور ایران جو کافی عرصے تک ایک دوسرے کے دُشمن رہے اور دُشمن بھی کوئی ایسے ویسے نہیں تھے بلکہ اِن کی دُشمنی اُس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ یہ ایک دوسرے کے وجود کوبھی زمین پر برداشت کرنے کو تیار نہ تھے؟ بلکہ دنیا نے سالوں یہ بھی دیکھا اور سُناکہ دنیا کے کسی بھی فورم پر نہ تو امریکا جوہری ایران کا نام سُننے کو تیار تھا اور نہ ہی ایران امریکا جیسے اُس دہشت گردِ اعظم کو جس نے اِس پر طرح طرح کی پابندیاں لگا رکھیں تھیں اِسے کہیں برداشت کرنے کا قائل نظر آتا تھا۔
مگر پھر پچھلے سال ایران میں ہونے والے انتخابات کے بعد جیسے ہی احمدی نژاد کا دور ختم ہوا اور ایران میں نیا حکمران صدر حسن روحانی کی شکل میں آیا تو پھر یکا یک ایک ایسا ماجرا ہو گیا جس کا دنیا نے کبھی گمان تک نہ کیا تھا یعنی امریکا کے جوہری ایران میں نئی حکومت کے آتے ہی ایران اور امریکا کی قرابتیں اتنی بڑھیں ہیں کہ امریکا جوہری ایران کو بھول گیا اور اِس پر عائد آدھے سے زیادہ پابندیاں ختم کرنے کو بھی تیار ہو گیا ہے یوں آج دنیا امریکا اور ایران کی دُشمنی کو دوستی میں بدلتی دیکھ کر حیران اور شسدر ہو کر رہ گئی ہے اور اَب تو دنیا بھی ایران کی امریکا کے ساتھ روارکھی گئی نرم گوئی اور امریکا پروری پر واری واری جانے والے اندازوں سے بقول شاعر بشیر فاروق کے یہی سمجھنے لگی ہے کہ :۔ عراق و لجزائر،شام و سوڈان و ٹیونس میں حکومت تو عوامی ہے مگر حیلے ہیں پرویزی وہ ہوں، مصر ومراکش ترکی وایراں کہ لیبیا ہو لباسِ طرز جمہوری میں سب حیلے ہیں پرویزی
Pakistan
اَب یہ بات پوری طرح سے عیاں ہو چکی ہے کہ آنے والے دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں ایران اور امریکا کے تعلقات اور بڑھیں گے اور دونوں کی قرابتیں اتنی بڑھ جائیں گیں کہ دونوں کے دنیا کے دیگر ممالک سمیت بالخصوص پاکستان سے مفادات بھی ایک جیسے ہو جائیں گے اور پھر ایران اور امریکا ایک بن کر دنیا کو اپنے لئے ایسے استعمال کریں گے اور ایک وقت ایسا بھی ہو گا جب امریکا جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے لئے ایران کو اتنا طاقتور بنا دے گا آج جیساکہ امریکا نے دنیا کے عرب ممالک سے اپنے مفادات حاصل کرنے اور اِنہیں اپنے دباؤ میں رکھنے کے لئے سرائیل کو ہر لحاظ سے طاقتور ین مُلک بناکر اِسے مشرقی وسطی کا چوہدری بنا دیا ہے۔
آج اچانک امریکی سیاست میں ایران سے متعلق یو ٹرن کا آنا اور ایران کا بھی امریکا کے لئے نرم رویہ رکھنا اپنے اندار ایک دوسرے کے لئے بے پناہ مفادات لئے ہوئے ہے یعنی ماضی میں اِن کا ایک لمبے عرصے تک ایک دوسرے کو اپنا دُشمن ظاہر کرنا بھی کسی نوار کُشتی سے کم نہیں ہے، اِس کا ندازہ اِس بات اور خبر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ایران میں یہودی آبادی 25 ہزار تک پہنچ گئی ہے ایک اندازے کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں یہیودیوں کا ایران میں رہنا یقینا امریکا ایران اور اسرائیل پر مشتمل ایک نئے بلاک کی تشکیل کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
خبر یہ ہے کہ تہران کے میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایران میں یہودی آبادی کی تعداد 25 ہزار ہو گئی ہے اور یہ مشرقی وسطی میں یہودی آبادی کی اسرائیل کے باہرسب سے زیادہ تعداد ہے رپورٹ کے مطابق ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے مُلک میں یہودیوں کے واحد اسپتال کے لئے ایک لاکھ ستر ہزار امریکی ڈالرز کا عطیہ بھی دیا ہے اور اِس کے ساتھ ہی تہران کے میڈیا نے بڑے وثوق کے ساتھ اپنا یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ نئے ایرانی صدر حسن روحانی کا اپنا عہدہ صدارت سنبھانے کے بعدسے یہ اِن کا یہودیوں کے لئے دوسرا بڑا اور قابلِ قدر اقدام ہے جبکہ اِسی تہرانی میڈیا نے اپنی اِسی رپورٹ میں اِس کا بھی اِنکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال ایرانی صدر حُسن روحانی نے 1942ء میں تہران میں قائم ہونے والے ڈاکٹر ساپر چیریٹی اسپتال کو بھی اتنی ہی رقم عطیہ کی تھی۔
ایسے میں یہاں یہ امر اُمتِ مُسلمہ کے یقینا قابلِ غور ہونا چاہئے کہ اِس خبر نے کیسے امریکا اور ایران کی قرابتیں آشکار کر دیں ہیں اور یہ بھی مُسلمہ اُمہ کے لئے غور طلب ہے کہ وہ اِس کو بھی مدِ نظر رکھے کہ ماضی میں امریکا اور ایران کا جو رویہ رہاوہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کے ہی مترادف رہا اور آج اِن کا ایک دوسرے کے مفادات کے لئے ایک ہو کر اپنی قرابتیں مضبوط کرنا بھی مستقبل قریب میں اِن کے جنوبی ایشیا سے وابستہ اپنے اپنے وسیع تر مفادات میں ہوگا۔