حکومت پاکستان نے دہشت گردی سے نپٹنے اور ملک میں امن امان کے استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو 9 ستمبر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ جس میں پاکستان آرمی نے بھی نہ صرف شرکت کی بلکہ اے پی سی (APC) میں شامل رہنماوؤں کو دہشت گردی کے خلاف بریفنگ بھی دی۔ یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ وفاقی حکومت پاکستان میں امن وامان کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار تھی۔ اسی لیے انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد طالبان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کا یہ فیصلہ طالبان نے بھی دل سے قبول کیا مگر پاکستان اور اسلام مخالف قوتوں کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔ عالمی ڈان امریکہ کی تو ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان مسائل میں الجھا رہے اور سچ تو یہ ہے کہ ساری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں تمام فساد کی جڑ امریکہ ہی ہے۔
ملک دشمن ضمیر فروش اور لالچی امریکی ایجنٹ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں جوپیسے کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار ہیں جس کی مثال ریمنڈ ڈیوس، شکیل آفریدی کی صورت میں ہمارے سامنے آچکی ہے ۔ بے ضمیر شکیل آفریدی بظاہر مسلمان ہے لیکن ایسے لوگوں کا کوئی دین نہیں ہوتاان کا سب کچھ پیسہ ہی ہوتا ہے اوریہ لوگ پیسے کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ ہمیشہ شکیل آفریدی جیسے لوگوں کی تلا ش میںرہتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایسے زرخرید لوگ ہی آستین کا سانپ بن کر پاکستان کا امن تباہ کرتے ہیں۔ ماضی میں ایسے بہت سے واقعات سے ہوئے ہیں کہ جس وقت حکومت اپنے ملکی حالات درست سمت پرلانے کے قریب ہوتی ہے تو امریکہ اپنی گھناؤنی چالوں سے ان حالات کوپھر خراب کر دیتا ہے۔
پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں کوئی بھی دہشت گردی ہوجائے تو فوراً طالبان کا نام لیا جاتا ہے مگر مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یقین ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کا ناحق خون نہیں بہا سکتا۔ طالبان تو صرف بدنام ہیں درحقیقت یہ سب کچھ پاکستان مخالف لوگ کروا رہے ہیں۔ ماضی میں پا ک آرمی نے سوات میں مولانا نیک محمد سے امن معاہد ہ کیا تھا مگر امریکہ کو پاکستان میں امن پسند نہیں اسی لیے اس نے نیک محمد کو میزائل حملے سے نشانہ بنوا کر مروا دیا جس کی وجہ سے سوات کے ساتھ ساتھ پورے ملک کا امن تباہ ہو کر رہ گیا تھا۔
Pakistan Taliban Talks
اب جب ایک بار پھر تمام پاکستانی سیاسی قیادت نے مل کر اپنے ملک کی خیر خواہی کے لیے طالبان سے مذاکرات کا عہد کیا۔ اس اے پی سی میں پاک آرمی نے بھی شرکت اور تمام سیاسی قیادت نے متفق ہوتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کو نیک شگون قرار دیا مگر ایک بار پھر امریکہ اور اس کے حواریوں کو یہ مذاکرات بالکل پسند نہیں آئے۔ اسی وجہ سے پہلے کی طرح اب بھی امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان اور طالبان کے درمیان خلیج بنانا چاہتے ہیں تا کہ ان کے درمیان مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور وہ ایک دوسرے کے دشمن بنے رہیں۔
پچھلے دنوں اپر دیرمیں ہونے والا سانحہ پاکستان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔جس میں آرمی کے جنرل، لیفٹیننٹ جنرل اور لانس نائیک شہید ہوئے۔ میڈیا کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی مگراس وقت سے آج تک یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ یہ طالبان نے حملہ کیا یا پھر طالبان کو بدنام کرنے اور حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سبوتاژ کرنے کے لیے امریکی ایجنٹوں نے کیا ہے؟ امریکہ پاکستان میں مختلف تنظیموں کے ذریعے جاسوسی کررہا ہے۔ اس نے سی آئی اے اور اسکے حلیف پاکستان دشمن عناصر کو مختلف طریقوں کا لالچ دیکراپنے ساتھ ملا کر پاک سرزمین کو نقصان پہنچانے کا ٹھیکہ لیا ہو اہے۔
حال ہی میں امریکہ کے دورے پر وزیراعظم نواز شریف نے صدر اوبامہ سے ملاقات کی۔ بقول ن لیگ کے کہ میاں صاحب نے صدر اوبامہ کا صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اب دوبارہ پاکستان میں ڈرون حملہ نہ کیا جائے۔ ابھی میاں صاحب کی امریکہ کے دورے کی تھکاوٹ دور ہونے نہ پائی تھی کہ امریکہ نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ کر دیا۔ حملے کے بعد پاکستانی عوام کو معلوم ہو گیا کہ میاں صاحب اوبامہ سے کیا بول کر آئے ہیں۔ امریکی دورے کے بعد جب پاکستانی وزیراعظم برطانیہ کے دورے پر گئے تو انہوں نے وہاں جا کر یہ اعلان کر دیا کہ پاکستان حکومت کے طالبان سے مذاکرا ت ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن ابھی تک طالبان سے مذاکرات کا انتظار کررہی تھی کہ میاں صاحب نے دیار غیر میں بیٹھ کر مذاکرات کا اعلان بھی کرڈالا ۔بس پھر کیا تھا بظاہر پاکستان کے خیرخواہ اور درحقیقت پاکستان کے دشمن امریکہ کو بھلا یہ کب منظور تھا کہ پاکستان اور طالبان ایک میز پربیٹھ سکیں۔ اس نے فوراً اپنے ڈرون حملے کے ذریعے طالبان کے کمانڈر حکیم اللہ محسود اور ان کے ساتھیوں کو مار ڈالا۔
اس کے بعد اب ملکی حالات پھر کشیدگی کی طرف چلے گئے ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی قیادت نے اس ڈرون حملے کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ امریکہ کے اس حملے سے پاکستان کے حالات بہتری کے بجائے مزید خراب ہونگے۔ پاکستانی سیاسی قیادت کی اب تو آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اب تو ان کو یقین کر لینا چاہیے کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے؟ اگر امریکہ طالبان سے مذاکرات کا حامی تھا تو پھر اس نے ایسا کیوں کیا۔
خدارا !اے پاکستانی حکمرانواب تو ہوش کے ناخن لوکیا امریکہ اسی طرح ہمیں آپس میں لڑوا کر مرواتا رہے گا یا کبھی ہم لوگ بھی اپنے اچھے برے کی سوچیں گے۔ امریکہ کو پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں اگر دلچسپی ہے تو اس کو پاکستانی معدنیات اور ایٹمی اثاثہ جات سے۔
مسلم دنیا میں واحد ایٹمی طاقت پاکستان ہے ۔جو غیرمسلم طاقتوں کو برداشت نہیں اس لیے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی نظریں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان سپر پاور بن کر ابھرے وہ چاہتے ہیں کہ بس پاکستان اپنے اندرونی اور سیاسی مسائل میں الجھا رہے۔