امریکی کھچڑی پر پاکستانی تڑکا

Paksitan

Paksitan

پاکستان کے ذریعے افغانستان کے ہاتھوں ”سوویت یونین” کو شکست و ریخت سے دو چار کر کے ”سپر پاور ” کا درجہ حاصل کرنے والے امریکہ نے کئی دہائیوں قبل دنیا کے ”جسٹس آف پیس ” ہونے کا جو اعلان کیا تھا اس کا ثبوت دینے کیلئے اس نے نہ صرف ویتنام میں قتل عام کیا بلکہ عراق کو تباہ کرنے کے بعد افغانستان میں بھی آگ و بارود کا کھیل کھیلا یہی نہیں بلکہ ” گلوبل جسٹس آف پیس ” کی اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے امریکہ کو 9/11 کے نام سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے اپنے دو ٹوئن ٹاور اور ہزاروں امریکی شہریوں کی بھی قربانی دینی پڑی اور یہ شاید ٹوئن ٹاور سانحہ میں ہلاک ہونے والے امریکیوں اور افغانستان و عراق میں غیر انسانی غیر طبعی اور بھیانک موت مرنے والے امریکی و نیٹو افواج میں شامل فوجیوں کی بھٹکتی ہوئی روحوں کا انتقام ہے یا ویتنا عراق اور افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے لواحقین کی بد دعاؤں کا اثر ہے کہ آج خود امریکی شہری اپنی حکومتی پالیسی سے نالاں و بیزار اور روز ی روٹی کیلئے محتاج ہو چکے ہیں۔

سامراجی و سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور اسلحہ کی فروخت کے ذریعے دنیا بھر کے سرمائے کو چند مخصوص تجوریوں تک مرتکز کرنے کی امریکی پالیسیوں نے نہ صرف دنیا بھر میں امریکہ کو تنہا کر دیا ہے بلکہ امریکی شہریوں کیلئے ماسوائے اسرائیل دنیا کا دیگر کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہا ہے جبکہ خود امریکہ بھی اندرونی خلفشار اور دہشتگردی سے دو چار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اب امریکیوں کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جاری صیہونی جنگ امریکیوں کے مفادات کی جنگ نہیں بلکہ اس سے دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے اور امریکی قوم صیہونیت کی جنگ میں اپنا سب کچھ ہارتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ امریکی ایوا ن میں بھی دہشتگردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے تحفظات کے اظہار کا آغاز ہو چکا ہے اور اپوزیشن جماعت نے اس جنگ پر مزید اخراجات کیلئے قومی سرمائے کی ضیاع سے انکار کر دیا ہے۔

جس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ امریکہ اس بدترین مالی و معاشی بحران کا شکار ہوا جسے ”شٹ ڈاؤن ” کا نام دیا گیا گو دھونس و دھمکیوں میں ناکامی کے بعد عاجزی و انکساری کی اداکاری اور درخواست و مذاکرات کے سہارے امریکی صدر اوبامہ نے اپوزیشن کو سمجھا و منا کر فی الوقت امریکہ کو ”شٹ ڈاؤن ” کی کیفیت سے باہر تو نکال لیا ہے لیکن امریکی پالیسی ساز اس بات سے بہر کیف آگاہ ہو چکے ہیں اب تادیر اپوزیشن کو قابو میں رکھنا اور امریکی قوم سے حقائق چھپاکر صیہونی مفادات کی جنگ کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے اسلئے امریکہ میں دہشتگردی کیخلاف جاری اس جنگ کو بتدریج کم کرتے ہوئے مکمل طور پر اس سے باہر نکلنے کیلئے پلاننگ کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ہمیشہ کی طرح” امریکی کھچڑی پر تڑکا” لگانے کیلئے پاکستان کا اسی طرح انتخاب کیا گیا ہے جس طرح افغانستان کے ہاتھوں سوویت یونین کو برباد کرانے اور افغانستان میں آگ و بارود کا کھیل کھیلنے کیلئے پاکستان کا انتخاب کیا گیا تھا۔

Taliban

Taliban

امریکی قیادت اس بات سے پوری طرح بہرہ ور ہے کہ افغانستان سے امریکی و نیٹو انخلاء کیلئے طالبان کو نہ تو امریکی خواہشات کا غلام بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں آزاد چھوڑا جاسکتا ہے اسلئے امریکہ نے طالبان سے ڈائیلاگ و مذاکرات کی راہ اپنائی مگر اس میں ناکامی کے بعد پاکستان میں قیادت و حکومت کی تبدیلی عمل میں لاکر طالبان سے سرکاری مذاکرات کا اہتمام کرایا گیا مگر چونکہ طالبان و پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ کسی مستند گارنٹی کی عدم دستیابی ہے جبکہ امریکہ کیلئے کمزور معاشی حالت اور حالیہ شٹ ڈاؤن کے بعد اب نہ تو تادیر افغانستان میں رہنا ممکن رہا ہے اور نہ ہی وہ ڈرون حملوں پر آنے والے کثیر سرمائے کے اسراف کا متحمل ہوسکتا ہے مگر امریکی اجارہ داری و تشخص برقرار رکھنے کیلئے اسے ڈرون حملے روکنے اور امریکہ سے نکلنے کیلئے کسی آبرومندانہ جواز کی تلاش ہے۔

اسی جواز کی پیدائش کیلئے پاکستان میں ڈرون حملوں میں اتنی تیزی لائی گئی کہ اندرونی دہشتگردی کے ساتھ ساتھ بھارتی سرحدی جارحیت’ بجلی بحران کرپشن اور دیگر تمام معاملات پس منظر میں چلے گئے اور پیش منظر میں صرف ڈرون حملے ہی رہ گئے اور پھر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت طے شدہ فارمولے پر عملدرآمد کیلئے امریکی مفادات کی بجاآوری کیلئے ایک بار پھر پاکستان کے گردش کنجہ کس دیا گیا ہے۔ ”امریکی کھچڑی پر پاکستانی تڑکہ” کیلئے وزیراعظم پاکستان کے امریکی دورے کیلئے ماحول سازگار بنایا گیا اور پاک امریکہ سربراہی ملاقات کو ایک نکاتی ایجنڈے یعنی ”ڈرون حملوں ” کی بندش تک محدود رکھنے کیلئے فضا قائم کی گئی مگر چونکہ میاں نواز شریف بھی ایک کہنہ مشق سیاستدان ہیں اسلئے امریکی خواہشات و منصوبے کے باوجود وہ ایک نکاتی ایجنڈے تک محدود نہیں رہے۔

اس دورے کو اپنے لئے بھی مفید بنانے کیلئے انہوں نے اس دورے میں ڈروں حملوں کی بندش کے علاوہ عافیہ صدیقی اور ”ٹریڈ ” کو بھی شامل کر لیا تاکہ پتلی معاشی حالت کے باعث ڈرون حملے بند کرنے پر مجبور امریکہ سے ڈرو ن حملوں کی بندش کا کریڈٹ لیکر اس کریڈٹ کو ضمانت کے طور پر طالبان کے سامنے پیش کرکے مذاکرات کی پالیسی کو آگے بڑھایا جا سکے اور عافیہ صدیقی کی رہائی کے مطالبے کے ذریعے جماعت اسلامی کو بھی ایکبار پھر سے واپس اپنی صف میں لایا جاسکے کیونکہ قومی و عالمی سیاست میں جماعت اسلامی کے کردار اسے انکار ممکن نہیں ہے جبکہ ایڈ کی بجائے ٹریڈ کا مطالبہ عوام کے آئندہ پانچ سالوں تک موجودہ حکومت پر اعتماد و یقین کیلئے کیا گیا ہے۔ اسلئے اگر یہ کہا جائے کہ امریکی کھچڑی پر پاکستانی تڑکا لگانے کی امریکی کوششوں کوکسی حد تک سبوتاژ کر کے اس کھچڑی میں پاکستان اپنا بھی حصہ ڈالنے میں کامیاب ہوگیا ہے تو بیجا نہ ہوگا لیکن امریکی کھچڑی میں شمولیت کی قیمت پاکستان نے ہمیشہ عوام کی تکالیف و پریشانیوں کی صورت چکائی ہے اس لئے عوام ایکبار پھر تیار ہو جائیں کیونکہ عین اس وقت جب امریکہ ڈرون حملوں کی بندش کیلئے جواز کی تلاش میں تھا۔

Aafia Siddiqui

Aafia Siddiqui

پاکستان کی جانب سے ڈرون حملوں کی بندش پر اصرار امریکہ کو ایک مفید جواز فراہم کرچکا ہے اور امریکہ چونکہ موقع سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے اسلئے اب پاکستان کو امریکی مطالبات کی صورت میں ڈرون حملوں کی بندش کی قیمت بھی چکانی ہوگی اور طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کیلئے طالبان کے مطالبات کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ اب امریکہ افعانستان سے جلد سے جلد انخلاء کیلئے پاکستان و طالبان مذاکرات کی کامیابی چاہتا ہے۔ رہی بات عافیہ صدیقی کی رہائی و پاکستان حوالگی کی تو ہو سکتا ہے امریکہ حکومت پاکستان کے اس مطالبے کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی اور امریکہ منتقلی سے مشروط کرکے اسلئے مان لے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب عمر اور صحت کی اس کیفیت میں ہیں کہ امریکی قید میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رحلت دہشتگردی کیخلاف جنگ سے آبرو مندانہ نجات کی امریکی خواہش کیلئے خطرناک ثابت ہوگی جبکہ ”شٹ ڈاؤن ” اور بدترین معاشی بدحالی سے دوچار ملک سے” ایڈیا ٹریڈ ”کا مطالبہ بھکاری سے بھیک مانگنے کے مترادف ہے جو پاکستانی قوم کو تو شاید پانچ سال کیلئے حکومت کا معتمد و معتقد رکھنے میں کامیاب رہے۔

ملکی معیشت کو عالمی مالیاتی و سرمایہ دارانہ نظام کی یرغمالی سے نکال کر غلامی میں دینے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ امریکہ کی ایڈ نہ تو ہمارے مفاد میں ہے اور نہ ہی امریکہ سے ٹریڈ ہمارے لئے خوشحالی و استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ پاک امریکہ مشترکہ اعلامیہ کے تحت توانائی سیکورٹی و دفاع’ قانون کے نفاذ اور انسداد دہشت گردی جیسے پانچ اہم شعبوں میں سٹرٹیجک ورکنگ گروپس قائم کرنے پر پاکستان کے ساتھ امریکی اتفاق کو اہم پیشرفت یا مستقبل کے حوالے انتہائی خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے امریکہ کا پاکستان میں رہنا انتہائی ضروری ہے جس کیلئے اس نے سیکورٹی ‘ دفاع ‘ قانون کے نفاذ اور دہشتگردی جیسے شعبوں میں سٹرٹیجک ورکنگ گروپس کے قیام پر اتفاق کے ذریعے مضبوط جواز تلاش کرلیا ہے جبکہ امریکی کھچڑی پر پاکستانی تڑکا لگانے والوں کا اتنا تو حق تھا کہ توانائی بحران سے نجات کے نام پر تھوڑی سی ان کی بھی رکھ لی جاتی سو امریکہ نے توانائی کے شعبے میں سٹرٹیجک ورکنگ گروپ کے قیام پر اتفاق کے ذریعے امریکی کھچڑی پر پاکستانی تڑکا لگانے کا شکریہ ادا کیا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ امریکی منصوبہ سازی کی کامیابی کیلئے معاون کردار کی ادائیگی پر رضامندی کا انعام دیا ہے۔

تحریر :عمران چنگیزی