واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے گوانتانا موبے جیل سے پانچ طالبان قیدیوں کو چھوڑنے پر اوباما انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
ریپبلکن پارٹی نے کہا ہے کہ اس سے امریکیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی، سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان میک کین نے کہا جن قیدیوں کو قطر کے حوالے کیا گیا،انتہائی خطرناک قسم کے لوگوں میں شامل ہیں، وہ ممکنہ طور پر ہزاروں لوگوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں اور وہ دوبارہ جنگ میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
افغان عوام کا بھی کہنا ہے کہ ان قیدیوں کی رہائی سے طالبان شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس سے خطے میں امن کے امکانات کم ہونگے۔ افغان عوام کو سب سے زیادہ اعتراض نوراللہ نوری پر ہے جو صوبہ بلخ کے گورنر تھے اور اس دوران انہوں نے ہزاروں شیعہ افراد کا قتل عام کیا۔
وائٹ ہائوس کے ترجمان جے کارنی نے کہا کہ گوانتاناموسے رہاکئے گئے طالبان امریکا کیلئے خطرہ رہے ہیں نہ ہی انکی رہائی سے کسی کی جان خطرے میں ڈالی، انہوں نے کہا امریکی فوجی کی رہائی کیلئے طالبان سے مذاکرات کو خفیہ رکھا گیا، جے کارنی کاکہنا تھاکہ حامد کرزئی کو بتا کر طالبان سے مذاکرات کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے اور کانگریس کو بتاتے تو نوٹیفکیشن کیلئے ایک ماہ انتظار کرنا پڑتا۔ افغان حکومت نے طالبان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں میں تبادلے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے اور اندرون خانہ شایدیہی ردعمل پاکستان کا بھی ہے۔
افغانستان کا کہنا ہے کہ قیدی کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنا بین الاقوامی قوانین کیخلاف ورزی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کامیابی کے بعد امریکہ طالبان کیساتھ اس مذاکراتی عمل کو شاید مزید آگے وسیع بنیادوں پر لیجانا چاہے گا۔ امریکی اعلان کہ وہ 2016۔ تک تمام فوجی افغانستان سے نکال دیگا
طالبان کو اس بات پر راضی کرنے میں مدد دیگا کہ وہ اسے اپنا دشمن تصور کرنیکا درجہ تبدیل کردے۔ اسکے بعد افغان حکومت کا یہ جواز بھی ختم ہو جائیگا کہ طالبان مغرب کے دشمن ہیں اور بالآخر افغان حکومت سے بھی مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کیلئے بہتر ہو گا کہ وہ براہِ راست مداخلت سے باز رہے اور افغانوں کو خود اپنے مسائل حل کرنے دے۔