اسلام ایک انسان کے ناجائز قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے ۔ قرآن میں انسانی نسل کشی کے حوالے سے بار بار فرعون کا ذکر آیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کہیں قتل و غارت گری کا واقعہ ہوتا ہے توآج بھی اس کو فرعونیت کہا جاتا ہے ۔ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جو اسلامی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تاکہ یہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو ۔ خوش قسمتی سے پاکستان واقعی اسلام کا قلعہ ہے ۔ اسلام کے لیے سب کچھ نچھاور کرنے کا جذبہ یہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں کے دل مردہ ہوچکے ہیں ۔ انہیں صرف اپنے ذاتی مفاد ات سے غرض ہے جس کے اثرات عوام پر مکمل طور پر مرتب ہو رہے ہیں ۔ قرون اولیٰ کے مسلمان خود سے زیادہ دوسرے بھائیوں کا خیال کرتے تھے مگر موجودہ حالات یہ ہیں کہ ذاتی مفاد ات کے لیے حقیقی والدین ، بہن بھائی، اولاد اور قریبی عزیزوں کی قربانی دے دیتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ڈرون نما فرعون کی شکل میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود اپنے بھائیوں کے قتل عام پر پاکستانی حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ڈرون حملے کیے جارہے ہیں اور ہر حملے میں کئی پاکستانیوں کی لاشوں کا تحفہ دیا جاتا ہے۔ اگرآج تک کیے گئے امریکی ڈرون حملوں کے تحفوں کو جمع کریں تو کئی ہزار پاکستانی اپنے خون سے چمنستان وطن کو لالہ زار بنا چکے ہیں ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک ہماری حکومت نے ان حملوں پر کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی ۔ ہمارے بھائیوں پر ڈرون حملے کیا جارہا ہے اور ہم صر ف زبانی کلامی احتجاج کرکے رہ جاتے ہیں۔ جس وقت نیٹو سپلائی بند کی گئی تھی تو ان ڈرون حملوں میں بڑی حد تک کمی ہوگئی تھی مگر اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہماری حکومت کو کونسی ایسی مجبوری تھی جو اس نے اپنے بھائیوں کی موت کے پروانے پر دستخط کرکے سپلائی کھول دی حتیٰ کہ اپنی ہی پارلیمنٹ کے فیصلے کو بھی جوت کی نوک پر رکھا ۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ دن میں دو دوڈرون حملے ہورہے ہیں۔ان ڈرون حملوں کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔
اگر ہماری سوچ اس حد تک محدود ہے کہ ان حملوں سے ہمارے گھر محفوظ ہیں کیونکہ وہ ہمارے علاقوں میں نہیں ہورہے تو یہ ہماری بہت ہی منفی اور گھٹیا سوچ ہے کیونکہ اگر اس کی روک تھام کے لیے مناسب تدبیر نہ کی گئی تو یہ متعدی مرض کل ہم تک ہر صورت پہنچے گا ۔پاکستانیوں کو اپنے آرمی چیف کی بات یاد ہے کہ جب انہوں نے کہا تھاکہ اگرحکومت ہمیں حکم دے تو ہم ڈرون گراسکتے ہیں۔ اب یہ سوال تو حکومت سے ہی کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاکستانی بھائیوں پر حملے کیوں کروائے جارہے ہیں؟ آرمی کو کیوں نہیں کہا جا رہا کہ ڈرون گرا دے؟ اگر امریکہ ہماری نہیں مان رہا تو پھر ہم اپنے دفاع کے لیے قدم کیوں نہیں اٹھا سکتے۔
ایک طرف ہم ڈرونی فرعون سے مررہے ہیں تو دوسری طرف ہمیں حکومت کی طرف سے تحفے میں ملے کئی فرعونوں نے ماررکھا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کے فرعون کی وجہ سے عوام خودکشی کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔سب سے بڑا مہنگائی کا فرعون ہے جس نے عوام میں جینے کی سکت ختم کردی ہے۔ ہر ہفتے پٹرول مصنوعات اور سی این جی میں اضافے کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتاہے اگر کسی ہفتے کمی بیشی کرنی پڑتی ہے تو وہ صرف ایک دو روپے تک اور اضافہ پا نچ سے دس روپے تک کرتے ہیں۔ پٹرول مصنوعات میں اضافے کے فوراًبعد ٹرانسپورٹ سے لیکر کھانے پینے کی اشیا تک میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی بات کی جائے تو چوبیس گھنٹوں میں سے صرف دو سے چار گھنٹے لائٹ ہوتی ہے اور بجلی کا بل چوبیس گھنٹوں سے زائد کا آتا ہے۔ حکمرانوں ، وڈیروں، رسہ گیروں اور بدمعاشوں کے بل بھی غریب عوام پر ڈال دیے جاتے ہیں۔
load shedding
جب غریب احتجاج کرتے ہیں تو پہلے احتجاج کرنے والوں کی پولیس چھترول کرتی ہے پھر واپڈا کی طرف سے چن چن کر غریبوں اور اس ظلم کے خلاف بولنے والوں کے خلاف پرچے درج ہوتے ہیں ۔ یوں پولیس کی غیبی امداد کا رستہ کھلتا ہے ۔ لوگوں کے تمام کاروبار بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ بیروزگاری اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ ملازمت ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی۔ ان پڑھ اور تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگاری سے تنگ آ کر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور کم سن بچے کھلے عام چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتے ہیں ۔ آئے دن پاکستان کے معروف و گمنام علاقوں میں سر عام ڈکیتی کی واردات ہوتی ہے۔نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ سنسان سڑکوں کے ساتھ ساتھ موٹروے جیسی شاہراہوں پر ڈکیتی ہوتی ہے۔
فرعون کسی بھی شکل میں تباہی مچائے اس کا نقصان تو پاکستان کو ہی ہورہا ہے۔ کیا ہے کوئی جو ان سے ہمیں بچا سکے؟ ہمارے سیاستدان میڈیا پر جمہوریت بچانے کی باتیں تو ہر روز کرتے ہیں مگر کبھی کسی نے عوام کو بچانے کی بات کی ہے جو ڈرون اور فرعون کی دجہ سے بلا موت مر رہے ہیں؟ اب یہ فیصلہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ جب عوام ہی نہیں رہے گی تو پھر یہ ملک کس کے لیے؟۔تحریر عقیل خان ( سینئر نائب صدر کالمسٹ کونسل آف پاکستان) [email protected]