تحریر: ایم سرور صدیقی کچھ لوگوں کا خیال ہے پاکستان کو بحرانوں کی سرزمین بھی کہا جا سکتا ہے ہر سال کوئی نہ کوئی بحران ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے اور نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوتاہے زیادہ تو بحران” ارینج” کئے جاتے ہیں مقصد صرف لوٹ مار اور عوام کااستحصال ہے اس میں زیادہ تر مکروہ چہرے ملوث ہیں جو سیاسی انار کی، عدم معاشی استحکام کا بڑا سبب ہیں یہ جوڑ توڑ کے ماہراور خاصے اثرورسوخ رکھتے ہیں ان کے حکومتی عہدیدار سے گہرے روابط ہیں جو بھی ہوجائے کو ئی ان کو پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتا بحران در بحران نے عوام کو ہلا کررکھ دیتے ہیں اس کی آڑ میں ناجائز منافع خوروں کا اربوں روپے کمانا معمول کی بات ہے بے چارے عوام کیلئے کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ، اوور بگنگ اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام پر بجلی بن کر گرتا ہے اور کبھی پٹرول، ڈیزل کی قیمتیں خواب میں آکر ڈراتی رہتی ہیں۔
کبھی چینی کبھی سبزیوں پھلوں اور آئے روز اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ بے چین کرکے رکھ دیتاہے۔ کبھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات خوف وہراس کا باعث بنتے ہیں اوراس کے نتیجہ میں عام آدمی ہی متاثرہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کی اکثریت زندگی کی بنیادی سہولتوں سے یکسرمحروم ہے۔ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں اور مسائل در مسائل نے جینا عذاب بنا دیا،آلودہ پانی کے مسلسل استعمال سے بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا، دہشت گردی، بیروزگاری اور مہنگائی سے لوگ عاجز آگئے جس سے بے چینی میں مسلسل اضافہ ہونا یقینی ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ہر شہری کے لئے بلا امتیازیکساں مواقع کی فراہمی سے غربت میں کمی آسکتی ہے۔۔۔میاں نوازشریف کو قدرت نے ایک سنہری موقعہ دیا ہے خدارا!اس ملک کے عام شہری کیلئے کچھ کیجئے جس کے پاس دینے کو رشوت ہے نہ سفارش۔۔۔ جس کا گارنٹی دینے والابھی کوئی نہیں۔۔گارنٹر میسر ہوتو لون سکیموں کے بغیر بھی قرضے مل جاتے ہیں۔۔۔۔
میاں صاحب !کیا مسائل کے مارے غریب۔۔۔ کم وسائل سفید پوش آ پ سے مایوس ہو جائیں ؟۔ مہنگائی، افراط ِ زر، غربت، لوڈشیڈنگ ،نا خواندگی، مہنگی تعلیم، علاج معالجہ کی سہولتوں کی عدم دستیابی اور دیہات سے لے کر میٹروپولیٹن تک عوامی مسائل ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں اور شاہ کے مصاحبوںکو مولا جٹ بننے سے فرصت نہیں۔۔۔ میاں نواز شریف کا جادو ابھی تک سیاست کے سر پر چڑھ کر بول رہاہے یہ بلاشبہ ان کی مقبولیت کی معراج ہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ان سے مقبول لیڈر پیدا نہیں ہواجس نے اپنے بیشتر ہم عصر سیاستدانوںکو میدان ِ سیاست سے آئوٹ کردیا اور میاں نواز شریف کے شیر کے بارے میں تو اب لوگ ایک دوسرے کو میسج بھیجتے رہتے ہیں کہ چودہ سال کا بھوکا شیر گوشت کے ساتھ ساتھ آٹا،ٹماٹر، ادرک، پیاز۔۔ الغرض کہ ہر چیز ہڑپ کرتا چلا جارہاہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔ اور اس حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر لا چھوڑاہے جسے منتوں مرادوں سے اقتدار میں لائے تھے اب یہ تو قوم کو معلوم نہیں میاں صاحب کو اقتدار ملا ہے۔۔۔ اختیار بھی ملا کہ نہیں۔۔
Politician
ویسے یہ عجیب بات نہیں کہ جمہوریت کے نام پر رو تمام لوگ اکھٹے ہوگئے ہیں جنہوں نے آج تک پاکستان کو دل سی تسلیم نہیں کیا ساری زندگی پاکستان کو گالیاں دیتے گذاردی ۔۔ جو قائد اعظم کی ریذیڈنسی تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں اب پاکستان کے مالک اور جمہوریت کے چمپئین بن گئے ہیں ہر حکمران اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے ان عناصر کو اپنے لئے استعمال کرتاہے اور یہ کبھی مذہب کبھی سیاست اور کبھی جمہوریت کے نام پر اپنے آپ کو فروخت کردیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یو مکروہ چہرے ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں مفادات اور مک مکا کی سیاست اور مفادات پر مبنی جمہوریت کا دفاع کرنا عوام، جمہوریت اور پاکستان پر ظلم ہے اس لئے پاکستان میں اخلاقی اقدار کے فروغ اور جمہوریت کے استحکام کیلئے ہر سیاستدان کو اپنا کردار فعال انداز سے ادا کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ کرپشن، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لئے ٹھوس اقدامات بھی ناگزیر ہیں ہمیشہ کیلئے آمریت کی روک تھام، سد ِ باب اور اس کی وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے۔۔۔
کسی غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہ کرنے پر اتفاق ہی واحد حل ہے صرف اس ایک نکاتی ایجنڈے پر تمام جمہوری قوتیں متحدہو جائیں تو جمہوریت کو لاحق خطرات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہو جائیں گے۔ عام انتخابات کا تسلسل، غیر جانبدانہ انتخابات کا انعقاد ، ووٹ کی حرمت پریقین، نتائج تسلیم کرنے کا حوصلہ ہی ایک بہترسیاسی فکرکو جنم دے سکتاہے ایک بات طے ہے جب تلک ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی پاکستان کے داخلی ، خارجی ،قومی اور علاقائی مسائل حل ہو ہی نہیں سکتیکل میرے ایک دوست نے کہا ہمارے حکمرانوںنے ہم سے خواب بھی چھین لئے ہیںہر طرف مہنگائی، بیروزگاری اور بجلی کے بلوںکی حال دہائی مچی ہوئی ہے کوئی عوام کی ترجمانی کی بات کرتاہے تو میری آنکھوں میں جگنو سے لرزنے لگتے ہیں جب عام آدمی روٹی کے لقمے لقمے کو ترس جائے۔۔۔
Promises
حکمران وعدے کرکے عوام کا حال تک نہ پوچھیں ان کے پاس دولت کے پہاڑ جمع ہو جائیں۔۔ لوگوں کی امید دم توڑنے لگے۔۔۔ خواب ڈارونے خواب بن جائیں تو پھر وہ انقلاب آکررہتاہے جس سے حکمران ابھی سے خوفزدہ ہیں۔عا ہے کہ یہ نظام بھی بدلنا چاہیے ۔۔ہم پاکستانی ایک ملک میں رہنے کے باوجودمگر آج بھی سندھی ،بلوچی، پٹھان اور پنجابی کی تفریق سے باہر نہیں نکلے۔۔۔پاکستان کا آج جو بھی حال ہے اس کیلئے حکمران۔ اشرافیہ ۔۔قوم پرست۔۔کرپٹ سب ذمہ دارہیں ہمیں اس خول سے باہر نکلناہوگا۔۔اب نیا سال طلوع ہوا ہے تو دل میں پھر حسرتیں امڈ آئی ہیں۔۔۔ امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔۔ ترقی و خوشحالی کی خواہشات انگڑائیاں لے رہی ہیں خداکرے جو مسائل ملک وقوم کو ماضیمیں درپیش تھے وہ اس سال ِ حل ہو جائیں اور ملک وقوم کو مکروہ چہروں سے نجات مل جائے اسی لئے ہمارے ہونٹوںپر یہ دعا مچلتی ہے۔
کوئی”ضبط” دے نہ”جلال” دے مجھے صرف اتنا ”کمال” دے میں ہر ایک کی ”صدا” بنوں کہ”زمانہ” میری”مثال” دے تیری ”رحمتوں” کا ”نزول” ہو میری ”محنتوں” کا ”صلہ” ملے مجھے”مال وزر” کی ”ہوس” نہ ہو مجھے بس تو ”رزقِ حلال” دے میرے”ذہن” میں تیری ”فکر” ہو میری ”سانس ” میں تیرا ”ذکر” ہو تیرا ”خوف” میری ”نجات” ہو سبھی”خوف” دل سے نکال دے