برطانیہ: ایسٹرا زینیکا ویکسین سے بلڈ کلوٹنگ کے مجموعی کیسز اب تیس

AstraZeneca

AstraZeneca

برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) برطانوی ریگولیٹری اتھارٹی نے ایسٹرا زینیکا ویکسین کے ضمنی اثرات کے طور پر انجماد خون کے کل تیس واقعات کی اطلاع دی ہے۔ یہ پچھلی بار رپورٹ کیے گئے واقعات میں پچیس کیسز کا اضافہ ہے۔

کچھ ممالک نے ایسٹرا زینیکا ویکسین پر پابندی عائد کر دی ہے اور جیسے جیسے اس ویکسین کے ضمنی اثرات کے طور پر بلڈ کلوٹنگ کے واقعات اور متاثرین میں سے متعدد کی اموات کی خبریں عام ہو رہی ہیں، اس ویکسین پر سے عوامی اعتماد بھی اٹھتا جا رہا ہے اور مختلف حکومتیں اس پر پابندیاں لگانے پر مجبور ہیں، حالانکہ اب تک حکام یہی کہتے آئے تھے کہ اس کورونا ویکسین کے فوائد انجماد خون جیسے ضمنی اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق کچھ کیسز میں ایسٹرا زینیکا ویکسین لگنے کے بعد دماغ میں خون جمنے کے شدید ضمنی اثرات سامنے آئے ہیں۔

گزشتہ ماہ برطانیہ میں ایسٹرا زینیکا ویکسین لگوانے والے 11 ملین افراد میں سے دماغ میں خون جمنے کے پانچ کیس رجسٹر کیے گئے تھے۔ اب ان کیسز میں اضافے سے ان کی تعداد 30 ہو گئی ہے۔ ان میں سے 22 کیسز شدید نوعیت کی ایک بہت ہی کمیاب دماغی بیماری سے متعلق ہیں، جس میں دماغی رگوں میں خون جمنا شروع ہو جاتا ہے۔

طبی تحقیقی شعبے اور ریکولیٹری حکام نے کہا ہے کہ انہیں اب تک جرمن دوا ساز کمپنی بائیو این ٹیک اور فائزر کی مشترکہ طور پر تیار کردہ کورونا ویکسین کے کسی بھی طرح کے ضمنی اثرات کے بارے میں کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔

یورپی یونین کے بہت سے ممالک میں کووڈ انیس کے کیسز میں مسلسل اضافہ انتہائی تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ بیشتر رکن ممالک نے اپنے زیادہ تر علاقوں میں عوامی سرگرمیاں اور ایسے علاقے، جہاں عوامی اجتماعات کے امکانات زیادہ ہوں، بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خاص طور پر ایسٹر کے تہوار کے موقع پر عوام میں اس وجہ سے بہت زیادہ عدم اطمینان پایا جا رہا ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کورونا لاک ڈاؤن کو سخت تر کرنے کے اقدامات نافذ کرنا چاہتی ہیں لیکن جرمنی کی 16 وفاقی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کسی مشترکہ حکمت عملی پر اب تک متفق نہیں ہو پائے۔ میرکل نے سیاسی اور اقتصادی دباؤ میں آ کر مجوزہ ایسٹر لاک ڈاؤن کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم 18 اپریل تک لاک ڈاؤن کے گزشتہ ضوابط لاگو رہیں گے۔ یعنی کسی گھر میں ایک وقت میں دو گھرانوں کے پانچ سے زائد افراد جمع نہیں ہو سکتے۔ کسی مخصوص علاقے میں فی ایک لاکھ کی آبادی میں ہفتہ وار بنیادوں پر 100 نئے کیسز سامنے آنے پر لاک ڈاؤن کے قواعد میں فوراً سختی لائی جاتی ہے۔ جرمنی میں پبلک ٹرانسپورٹ میں، عوامی جگہوں پر اور شاپنگ کے مراکز وغیرہ میں ماسک پہننا لازمی ہے۔ حالیہ دنوں میں اشیائے خورد و نوش کی دکانوں کے علاوہ کسی اور اسٹور یا مال وغیرہ میں داخل ہونے کے لیے کورونا ٹیسٹ کی منفی رپورٹ دکھانا لازمی کر دیا گیا ہے۔

یورپی ملک فرانس تیسرے لاک ڈاؤن میں ہے۔ مارچ کے اواخر میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ملک بھر میں تیسرے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ وہ قواعد جو پہلے زیادہ متاثرہ علاقوں پر لاگو ہوتے تھے، انہیں اب پورے فرانس میں نافذ کر دیا گیا ہے اور ان میں چار ہفتوں کی توسیع بھی کر دی گئی ہے۔ زیادہ تر دکانیں بند رہیں گی اور شام سات بجے سے کرفیو کا نفاذ بھی اس لاک ڈاؤن کا حصہ ہے۔ ڈےکیئر سینٹرز اور اسکولوں میں ایسٹر کی موجودہ تعطیلات کو مزید ایک ہفتے کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔

تمام ہیئر ڈریسرز، بیوٹی پارلرز وغیرہ پھر سے بند ہیں اور اس یورپی ملک میں اب ایک نسبتاً نیا قانون نافذ کر دیا گیا ہے، جس کے مطابق ضروریات زندگی کی خریداری کے علاوہ اگر کوئی شہری دیگر اشیاء کی خریداری کرنا چاہتا ہے، تو اسے پہلے شاپنگ کی خاطر اس کے لیے طے شدہ وقت لینا ہوگا۔ اسکول اور یونیورسٹیاں ایسٹر سے مزید تین ہفتے تک بند رہیں گے۔ بیلجیم کے سفر اور وہاں داخلے پر جنوری سے عائد پابندی کا اطلاق اب مزید جامع انداز میں ہو گا۔

اسپین میں مقامی باشندوں اور غیر ملکیوں ہر کسی کے لیے ماسک پہننا لازمی ہے، گھر سے باہر ہر جگہ۔ اس جنوبی یورپی ملک میں سفر کے ضوابط بھی مختلف ہیں۔ جہاں یورپ کے کئی دیگر ممالک نے ایسٹر کے موقع پر شہریوں کی نقل و حرکت مزید محدود کرنے کا فیصلہ کیا، یورپ بھر کے باشندوں کو مایورکا جیسے تعطیلاتی جزائر پر ‘غسل آفتابی‘ کے لیے جانے کی اجازت ہے لیکن ماسک کے ساتھ ۔

یورپی ملک پرتگال 15 اپریل تک ایمرجنسی کی حالت میں رہے گا۔ موسم سرما میں انفیکشن کی شرح میں بہت زیادہ اضافے کے بعد ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں نئے کورونا کیسز کی تعداد میں کمی ہوئی اور حکومت نے مارچ کے وسط سے مرحلہ وار لاک ڈاؤن کی سختیاں کم کرنا شروع کر دی تھیں۔ اب اپریل میں پرتگال کے عجائب گھروں جیسے عوامی مقامات دوبارہ کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ اگلے مرحلے میں سینما گھر اور تمام دکانیں بھی کھل جائیں گی۔ تاہم ان حالات میں نئی انفیکشنز کی شرح میں اضافے کی صورت میں تبدیلی آ ہو سکتی ہے۔

گھروں سے باہر نکلنے کی کوئی ٹھوس اور اہم وجہ ہونا چاہیے۔ یونان میں لاک ڈاؤن کے سخت ترین قوانین کم از کم 5 اپرل تک لاگو رہیں گے۔ وہاں شہریوں کو صبح پانچ بجے سے رات نو بجے کے درمیان گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے کا ان کے پاس کوئی ٹھوس جواز موجود ہو۔ مثلاﹰ ڈاکٹر کے پاس جانا، ورزش کے لیے، کام پر جانے کے لیے یا پھر پالتو کتے کو سیر کے لیے لے جانے کی خاطر۔ یونان کی قومی سرحدیں پار کرنے والے ہر شخص کے لیے کورونا ٹیسٹ اور قرنطینہ کے ضوابط کا احترام کرنا لازمی ہے۔