لیڈز برطانیہ (تیمور لون) برطانیہ کے شہر لیڈز میں کشمیری ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے جے کے ٹی وی کی جانب سے ایک کلچرل اور کراؤڈ فنڈنگ (چندہ مہم) کا انعقاد کیا گیا جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ممتاز کشمیری شخصیات نے شرکت کی تقریب میں نامور شاعر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عاطف توقیر نے خصوصی طور پر شرکت کی تقریب میں نامور کشمیری سنگر خواجہ زاہد لون اور لالہ قدیر نے ریاست میں بولے جانے والی مختلف زبانوں میں گیت بھی پیش کئے ۔ تقریب میں ریاست جموں کشمیر کے حالیہ صورت حال پر بھی بات کی گئی اور خصوصاً کردار پور بارڈر کی طرح آر پار ریاست کے باشندگان کے لیے بھی کوئی اقدام کرنے کا مطالبہ کیا ۔
شوکت مقبول بٹ کا کہنا تھا کہ کرتار پور راہداری کھولنا نہایت مثبت قدم ہے اس سے بآسانی لوگ انڈیا اور پاکستان میں اپنے مذہبی و مقدس مقامات پر حاضری دے سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر پر کنٹرول لائن پر بھی ایسے ہی اقدامات کر نے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں اطراف میں کشمیر کے جو خاندان گزشتہ پانچ دھائیوں سے آپس میں کٹے ھوئے ہیں انکو باہم ملنے دیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں ہندوؤں کے مقدس مقامات ہیں جن میں بدھ مت کا پرانا مندر شاردہ سر فہرست ہے ، کشمیری پنڈتوں کو بھی اجازت دی جائے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کر سکیں۔
نامور شاعر اور ایکٹوسٹ عاطف توقیر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرتار پور راہداری کی حمایت کرتے ہیں یہ باالکل صحیح فیصلہ کیا گیا ھے۔ مذھبی حوالے سے مقدس مقامات پر لوگوں کی آمد ورفت کو آسان بنانا چاہئے۔ اسی طرح جموں کشمیر کو لوگوں کو بھی یہ حق حاصل ھونا چاہئے کہ وہ بھی کنٹرول لائن کے دونوں جانب آزادانہ نقل و حمل کر سکیں اور اپنے بچھڑے ہوئے خاندان سے مل سکیں۔
نامور کشمیری محقق شمس رحمان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا پچھلے 71 سالوں سے جنگ وجدل کی باتیں ھوتی رہی ہیں اس لحاظ سے کرتار پور راھداری خطے میں امن کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ جہاں تک ریاست جموں کشمیر کا سوال ھے تو ریاست کو یونائٹڈ نیشن کی طرف سے یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ دونوں اطراف میں آزادانہ آ جا سکتے ہیں اور1965 تک ایسا ہی ھوتا رہا لوگ اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ لیکن جب 1965 کی جنگ ھوئ تو اسکے بعد سے یہ سلسلہ منقطع کر دیا گیا جو کہ سراسر کشمیر کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اگر 71 سال بعد کرتار پور کا بارڈر سکھ یاتریوں کے لیے کھل سکتا ھے تو کشمیر میں کنٹرول لائن پر آمد ورفت کو بھی اسی طرح بحال کیا جانا چاہئے جس طرح 1965 سے پہلے ھوا کرتی تھی۔ پاکستان کی جانب سے یہ ایک اچھی شروعات ھے اور اسکو ایسے ہی چلتے رہنا چاہئے۔
ممتاز کشمیری ادیب کونسلر علی عدالت کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے باشندہ ریاست لوگوں کو آپس میں ملنے دیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے مقدس مقامات جیسے چرار شریف درگاہ حضرت بل، کشمیر کی سب سے پرانی مسجد خانقاہ معلیٰ، اور دیگر اہل تصوف کے مزارات پر حاضری دینے کے لیے لوگوں کو بلا روک ٹوک جانے دیا جائے اور اسی طرح کشمیری پنڈتوں۔ کو بھی آزاد کشمیر میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے آنے دیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا یا پاکستان کی حدود میں بغیر ویزا کے یہ لوگ نہیں داخل ھو سکتے مگر جہاں تک ازادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا سوال ھے ان لوگوں کو بغیر کسی حیل و حجت کے دونوں اطراف میں جانے دیا جائے۔
محمود کشمیری ، کونسلر غلام حسین ، امجد یوسف ، زاہد لون ، توقیر لون ، طلعت بٹ،فریحہ عتیق و دیگر نےمیڈیا نمائندگان سے گفتگو کے دوران بھی اس بات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کرتار پور راہداری کو مثال بناتے ھوئے کشمیر میں کنٹرول لائن کو لوگوں کی آمد و رفت کے لیے کھولا جائے تا کہ لوگ اپنی بچھڑے ھوئے خاندانوں سے جب جی چاہے مل سکیں۔ دونوں اطراف میں کشمیر کے باشندہ ریاست کو آزادانہ طور آمد ورفت کی اجازت ھونی چاہئے۔