ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر اولاف شولس اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان پیر کے روز ملاقات ہوئی۔ ایردوآن نے مستقبل میں روس سے ہتھیاروں کی فروخت پر تشویش کا اظہار کیا۔
انقرہ میں دونوں رہنماوں کے درمیان ملاقات کے دوران جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ روس یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں خود کو دنیا کے دیگر ملکوں سے الگ تھلگ کرتا جارہا ہے۔
شولس کا کہنا تھا، “ہر گزرتے دن کے ساتھ، ہر ایک بم کے ساتھ، پوٹن خود کو بین الاقوامی برادری سے مزید الگ کرتے جارہے ہیں۔” انہوں نے روس سے حملے کو روک دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا اس مسئلے کا صرف سفارتی حل ہے۔ شولس نے کیا کہا؟
ترک صدر سے بات چیت کے بعد شولس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “صدر ایردوآن اور میں اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ یوکرین میں پرتشدد فوجی تصادم کی مذمت کی جانی چاہئے اورہم حتی الامکان جلد از جلد جنگ بندی دیکھنے کے خواہاں ہیں۔”
شولس نے بتایا کہ ترکی اور جرمنی دونوں نے ہی یوکرین کی ہتھیاروں سے مدد کی ہے اور آبنائے باسفورس کو بند کردینے کے لیے انقرہ کا شکریہ ادا کیا۔ آبنائے باسفورس ترکی کے کنٹرول میں ہے اور یہ بحیرہ روم اور بحر اسود کے درمیان جنگی جہازوں کے لیے راہداری کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
شولس نے جرمنی اور ترکی کے درمیان بعض پالیسیوں پر اختلافات کا بھی ذکر کیا، جن کی وجہ سے باہمی تعلقات بعض اوقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ ان میں “قانون کی حکمرانی، حقوق انسانی، یا جرمن شہریوں کی گرفتار ی کا معاملہ شامل ہے جنہیں یا تو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے یا پھر انہیں گھرچھوڑنے کے کی اجازت نہیں ہے۔”
جرمن چانسلر نے کہا، “میرے خیال میں ان معاملات میں ہم نے پیش رفت کی ہے اور مجھے امید ہے کہ ان اختلافات کا کوئی ایسا حل تلاش کرلیں گے جو دونوں کے مفاد میں ہوگا۔”
ایردوآن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “ہمیں سفارتی کوششیں تیز تر کردینے کی ضرورت ہے۔ ترکی دونوں فریق کو ایک ساتھ لانے میں اپنی ہر ممکن کوشش کرے گا۔” انہوں نے اس حوالے سے انقرہ کی میزبانی میں گزشتہ دنوں روسی اور یوکرینی وزرائے خارجہ کی ہونے والی میٹنگ کا بھی ذکر کیا۔
ترک صدر نے دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر بھی زور دیا۔
انہوں نے کہا، “جرمنی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لحاظ سے ہمارا ایک اہم پارٹنر ہے۔ سن 2020 میں دونوں ملکوں کی باہمی تجارت 38 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور ہم نے اسے 50 بلین ڈالر تک لے جانے کا عزم کر رکھا ہے۔”
انہوں نے ترکی کی سیاحت سیکٹر کوفروغ دینے میں جرمنی کے اہم کردار کا بھی ذکر کیا۔ اس شعبے میں روس بھی اس کے ساتھ ہے۔ امریکہ نے سن 2020 میں ترکی پر اس وقت پابندی عائد کردی تھی جب اس نے روس سے ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدے تھے۔ اس دورے کے بارے میں ہمیں اور کیا معلوم ہے؟
یوکرین پر روس کا حملہ دونوں رہنماوں کی بات چیت میں غالب رہا۔ ترکی نے اس تصادم میں خود کو ایک ثالثی کی پوزیشن میں رکھا ہے۔ اس نے کییف اور ماسکو دونوں ہی کے ساتھ نسبتاً دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
گزشتہ ہفتے یوکرین اور روس کے وزرائے خارجہ نے انطالیہ میں ملاقات کی تھی۔ دونوں ملکوں کے مابین جنگ شروع ہونے کے بعد یہ پہلی اعلیٰ سطحی ملاقات تھی۔ گوکہ اس بات چیت کے نتیجے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی تاہم ترکی نے اسے اس لحاظ سے کامیاب قرار دیا تھا کہ کم از کم بات چیت تو ہوئی۔
روس یوکرین کے درمیان جنگ میں انقرہ کے کردار کی وجہ سے متعدد ملکوں بشمول یونان، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں جو حالیہ برسوں میں کشیدہ تھے۔
گوکہ جرمنی اور ترکی دونو ں ہی نیٹو کے رکن ہیں اور دونوں کے درمیان قریبی اقتصادی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں میں ان کے باہمی تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔
ترکی میں سن 2016 میں فوجی بغاوت کے بعد ایردوآن نے اپوزیشن کے خلاف کارروائیاں تیز کردیں، جن کی برلن نے مذمت کی تھی۔ برلن نے ایردوآن حکومت کی طرف سے جرمن ترک صحافی دینیز یوجیل کو جیل میں ڈال دینے کی بھی نکتہ چینی کی۔
جرمنی نے حالیہ مہینوں میں سماجی کارکن عثمان کوالا کو بھی جیل سے رہا کرنے کی اپیل کی تھی لیکن ترکی نے یورپی انسانی حقوق عدالت کے حکم کے باوجود انہیں رہا کرنے سے انکار کردیا۔