یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) ہفتے کے روز اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ماسکو کا اچانک دورہ کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا تھا۔ اسرائیل روس اور یوکرین کے مابین ثالثی کا مشکل کردار نبھانے جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے؟
اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کو اپنا عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا اور عالمی سیاسی اسٹیج پر بھی ابھی وہ غیر تجربہ شدہ ہیں۔ تاہم انہوں نے روس اور یوکرین کے مابین مشکل سفارتی میدان میں بطور ثالث قدم رکھا ہے اور سفارتی دنیا میں وہ ایک نئے کھلاڑی کے طور پر اُبھر کر سامنے آنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب جنگ کے دوران ایک ثالث کے طور پر سامنے آنا، خود اسرائیل کے لیے بھی باردوی سرنگ ثابت ہو سکتا ہے۔ کئی معاملات میں اسرائیل کا روس پر انحصار ہے۔ شام میں سکیورٹی کوآرڈینیشن ہو یا ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات، اسرائیل اس حوالے سے روس کے ساتھ میز پر بیٹھا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل صدر ولادیمیر پوٹن کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دریں اثناء یہ بھی واضح نہیں ہے کہ امریکہ کی آشیرباد سے شروع ہونے والی یہ ثالثی واقعی رنگ لائے گی؟ یوکرین کے بحران میں اس غیر متوقع نئے کھلاڑی پر ایک نظر! اسرائیلی وزیراعظم کیوں متحرک ہوئے؟
بینیٹ گزشتہ سال اس وقت ایک معاہدے کے تحت اقتدار میں آئے تھے، جب نظریاتی طور پر آٹھ مختلف جماعتیں سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو ہٹانے پر تلی ہوئی تھیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں داخلی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے۔ بینیٹ ایک مذہبی یہودی ہیں، جنہوں نے ملک کے ہائی ٹیک سیکٹر میں لاکھوں کمائے ہیں، بینیٹ ماضی میں کابینہ کے مختلف عہدوں پر کام کر چکے ہیں لیکن ان میں کرشمہ اور اپنے پیشرو کی طرح بین الاقوامی تجربے کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور پوٹن کے درمیان ثالثی ان کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں ہے۔
انہیں روس پر واضح تنقید نہ کرنے کی وجہ سے بھی ملک میں تنقید کا سامنا ہے۔ جب بینیٹ حال ہی میں بار بار یوکرین کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کر رہے تھے تو وہ روس کے حملے کی مذمت کرنے سے باز رہے۔ مغرب جب روس پر پابندیاں عائد کر رہا تھا، تو اس وقت بینیٹ یوکرین اور روس کے ساتھ رابطوں میں تھے۔
انہوں نے ماسکو کا اچانک دورہ کیا، جو یوکرین پر حملے کے بعد کسی بھی مغربی حمایت یافتہ لیڈر کا پہلا دورہ تھا۔ اس طرح کے ہائی پروفائل تنازعے میں شمولیت سے بینیٹ کا اپنا سیاسی مستقبل بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی میں یورپی امور کی ماہر ایستھر لوپاٹن کہتی ہیں، ”بینیٹ نے خود کو نئے سرے سے دریافت کیا ہے۔‘‘ ایستھر لوپاٹن کے مطابق بینیٹ کی مقبولیت کم ہو رہی تھی، انہیں عوامی تنقید کا سامنا تھا اور اب انہوں نے اپنی ‘ہیٹ میں سے خرگوش نکالا‘ ہے۔ ایک بارودی سفارتی سُرنگ
اسرائیل کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جس کے نا صرف یوکرین بلکہ روس کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات ہیں۔ اسرائیل نے یوکرین کے لیے 100 ٹن سے زائد امدادی سامان اور وہاں ایک فیلڈ ہسپتال قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یوکرین میں تقریبا دو لاکھ یہودی بھی آباد ہیں اور ان کے اس ملک میں اچھے کاروبار بھی ہیں۔ ان میں سے ہزاروں فرار ہو کر اسرائیل پہنچ گئے ہیں جبکہ آئندہ دنوں میں اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
لیکن روس کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات تزویراتی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسرائیل شام میں سیکورٹی کوآرڈینیشن کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے۔ اسرائیل مخالف قوتیں اس کے ہمسایہ ملک شام میں موجود ہیں اور اسرائیل کو معلوم ہے کہ روسی تعاون کے بغیر وہ ان قوتوں سے مناسب طریقے سے نہیں نمٹ سکتا۔ دوسری جانب ویانا میں جاری ایران جوہری مذاکرات میں روس بھی شامل ہے اور اس کے ہاتھ میں کافی طاقت بھی ہے۔ اسرائیل اس جوہری معاہدے کے خلاف ہے اور اس حوالے سے وہ آئے دن روس کے ساتھ مذاکرات کرتا رہتا ہے۔
اگر اسرائیل کی رسائی سراسر ثالثی میں بدل جاتی ہے تو اسرائیل اپنے مغربی اتحادیوں کے برعکس اپنی غیر جانبدار پوزیشن کو برقرار رکھ سکے گا۔ یہاں تک کہ اگر روس کے حملے میں شدت بھی آتی ہے تو اسرائیل کے پاس اپنے مغربی اتحادیوں کو جواب دینے کا جواز ہو گا اور وہ روس پر عائد پابندیوں میں شامل نہیں ہو گا۔ لیکن اسرائیل کی کوئی بھی قابل اعتراض پوزیشن سے صدر پوٹن ناراض ہو سکتے ہیں اور اس کا الزام بینیٹ کے سر ہی آئے گا۔ کیا بینیٹ کامیاب ہو سکیں گے؟
اپنے دورہ ماسکو کے فورا بعد بینیٹ کا کابینہ سے کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کی اخلاقی ڈیوٹی تھی کہ وہ اس حوالے سے قدم اٹھائے۔ ان کے مطابق اسرائیل ماضی میں بھی بین الاقوامی سطح پر ثالثی سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔
اسرائیل کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی سابق اہلکار اور ‘فلوئڈ رشیا‘ نامی کتاب کی مصنف ویرا مچلن شاپیر کہتی ہیں، ” یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی پوٹن سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہے لیکن اسرائیل ایک ایسا کھلاڑی ہے، جو دونوں فریقین سے بات چیت کر سکتا ہے۔‘‘
تاہم ویرا مچلن شاپیر کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل کے پاس اس طرح کے پیچیدہ بحران میں مناسب طریقے سے ثالثی کرنے کے لیے سفارتی اوزار ہی نہیں ہیں۔ فرانس اور ترکی جیسے بڑے بین الاقوامی کھلاڑی بھی اس بحران کو ٹالنے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ” دوسری طرف بینیٹ نے راتوں رات خود کو بین الاقوامی سطح پر اپ گریڈ کیا ہے اور ملکی سطح پر سیاسی پوائنٹس حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘‘
اسرائیل کے مشہور مبصر بارک راوید نے لکھا ہے، ”دوسری طرف، وہ نہ صرف ایک سیاست دان کی حیثیت سے اپنے لیے بلکہ دنیا میں اسرائیل کی ریاست اور اس کے موقف کے لیے بھی ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ” وزیر اعظم یہ جانے بغیر کہ گہرائی کتنی ہے، یوکرین کے کیچڑ میں گھس گئے ہیں۔‘‘