یوکرین میں لڑنے والے ترک ساختہ ڈرون کتنے کارآمد ہیں؟

Turkish Drones

Turkish Drones

یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز مقبول ہیں، جن میں یوکرینی جنگ کے دوران ترک ساختہ ’بائراکتار ٹی بی2‘ ڈرون کی کامیابیوں پر فخر کیا جا رہا ہے۔ جانیے ترکی اور ترک ساختہ یہ ڈرون یوکرین جنگ میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟

حالیہ چند روز سے یوکرین اور ترکی کے سوشل میڈیا صارفین تواتر سے ترک ساختہ ڈرونز کی ویڈیوز شئیر کر رہے ہیں۔ ان ویڈیوز میں ایک دوسرے کو مبارکبادیں بھی دی جا رہی ہیں اور ‘بائراکتار ٹی بی2‘ نامی ڈرونز کی کارکردگی پر فخر بھی کیا جا رہا ہے۔ انگلش اور ترک زبان کے سب ٹائٹلز کے ساتھ پوسٹ ہونے والی ان ویڈیوز میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یوکرینی فوج روسی فورسز کے خلاف کامیابی سے ان کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔

لیکن ‘بائراکتار ڈرون‘، جن کو اکثر صرف TB2s کے نام سے پکارا جاتا ہے، یوکرین پر روسی حملے کے دوران کتنے کامیاب رہے، اس کی ابھی تک آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم یوکرین کے پاس سن 2019ء سے ایسے ڈرونز موجود ہیں اور گزشتہ تین برسوں میں ان کی تعداد بڑھ کر 50 سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

گزشتہ بدھ کو یوکرینی وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے مزید ترک ساختہ ڈرون خریدے ہیں، جو جنگی میدان میں اُترنے کے لیے تیار ہیں۔ جمعرات کو یوکرینی صدر وولودیمر زیلنسکی نے بھی بیان دیا کہ ان کا ملک ترک ساختہ ڈرونز سے بہت فائدہ اٹھا رہا ہے۔

ہمیشہ کی طرح جب ہتھیاروں کی ترسیل کی بات آتی ہے تو ترکی نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا۔ دنیا کو اکثر میڈیا رپورٹوں سے ہی ان ڈرونز کے وجود کے بارے میں پتا چلتا ہے اور خاص طور پر تب ، جب یہ جنگ میں استعمال ہوتے ہیں یا پھر وصول کنندہ ملک خود ان کے بارے میں بات کرتا ہے۔

‘بائراکتار TB2 ڈرون‘ ترک کمپنی بائیکار ٹیکنالوجی کے تیار کردہ ہیں۔ یہ کاروبار دو بھائیوں کا ہے اور اس کی بنیاد پہلی بار 1986ء میں رکھی گئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ترکی کی اسلحہ سازی کا ایک بڑا ادارہ بن چکا ہے اور اس کا تعلق بائراکتار خاندان سے ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے داماد سلجوک اسی بائراکتار کمپنی کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ کمپنی ابھی تک سولہ ممالک کو ڈرون فروخت کر چکی ہے۔ ان ممالک میں یوکرین، آذربائیجان، مراکش، تیونس، قطر، کرغزستان اور ترکمانستان بھی شامل ہیں۔ گزشتہ برس پولینڈ یہ ڈرون خریدنے والا پہلا یورپی اور نیٹو کا رکن ملک تھا۔ پولینڈ کے پاس اب ایسے 24 ڈرون ہیں۔

تفتیش کاروں کے مطابق حال ہی میں ایتھوپیا میں بھی یہی ڈرون استعمال کیے گئے تھے اور اُس حملے میں بھی، جس کے نتیجے میں تیگرائے میں 59 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔

یہ ڈرون 6.5 میٹر لمبا ہے اور اس کے پروں کی چوڑائی بارہ میٹر بنتی ہے۔ یہ چوبیس گھنٹے تک فضا میں رہ سکتا ہے اور اس کی رفتار 220 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ دیگر ڈرونز کی طرح بہت مہنگا بھی نہیں ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ یوکرین کے پاس درحقیقت کتنے ڈرون ہیں اور آیا ترکی نے تمام تازہ ترین آرڈر فراہم کر دیے ہیں۔ لیکن اگر یوکرین کے پاس وہ تمام ڈرون موجود ہیں، جو اس نے مانگے تھے، تو کیا یہ روس کے ساتھ جنگ کے نتائج کو تبدیل کر سکتے ہیں؟

جرمن فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی و سلامتی کے امور کے ماہر وولفگانگ ریشٹر کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے۔ ان کا نشاندہی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک ڈرون ایک وقت میں صرف ایک ہی ہدف پر حملہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کا بتایا، ”اس کا مطلب ہے کہ اگر یوکرین کے پاس یہ ڈرون ہیں تو روسی فورسز کو زیادہ نقصان تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن زمینی لڑائی کے مقابلے میں ڈرون جنگ کے اثرات محدود ہوں گے۔‘‘

وولفگانگ ریشٹر کے مطابق تقریباً 600 جنگی گاڑیوں کا ایک قافلہ یوکرین کے دارالحکومت کے قریب پہنچ رہا ہے۔ روسی یوکرین پر مختلف اطراف سے حملہ آور ہیں۔ دوسرا کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ آیا یوکرینی ڈرون ابھی تک فعال ہیں یا ان میں سے کتنے تباہ ہو چکے ہیں۔

ترک صدر نے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ ہی برسوں سے اچھے تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ ترکی نے یوکرین کو جنگی ڈرون فراہم کیے ہیں لیکن امریکی مخالفت کے باوجود زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ‘ایس 400‘ روس سے خریدے ہیں۔

جرمن تھنک ٹینک ‘ایس ڈبلیو پی‘ کے ‘سینٹر فار اپلائیڈ ترکی اسٹڈیز‘ میں سکیورٹی اور دفاعی پالیسی کی ماہر داریا اساچینکو کے مطابق ترکی کے لیے مستقبل میں اس قسم کے توازن کو برقرار رکھنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ ایردوآن روس یا یوکرین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ اس کے سنگین سکیورٹی اور اقتصادی نتائج ہوں گے۔

داریا اساچینکو کہتی ہیں کہ مغرب ترکی کو جو پیشکش کرتا ہے، اس کی جگہ روس نہیں لے سکتا لیکن نہ ہی مغرب ترکی کے حساب کتاب میں روس کی جگہ لے سکتا ہے۔ لہذا ترک صدر صرف وہی کریں گے، جو ضروری ہے۔

داریا اساچینکو کے مطابق ترکی نے روسی جنگی جہازوں کو اپنے آبی راستوں سے گزرنے سے تو روک دیا ہے لیکن روس پر پابندیوں کے حوالے سے انقرہ حکومت مغرب کا ساتھ نہیں دے گی، ”کیوں کہ ماسکو حکومت اس کا بلاتاخیر جواب دے سکتی ہے۔ روسی پابندیاں ترکی کی معیشت کو بہت بڑا دھچکا دیں گی، خاص طور پر سیاحت، تعمیرات اور گندم کی درآمد میں۔‘‘ ترکی اپنی 70 فیصد گندم روس سے درآمد کرتا ہے۔

الماس توپچو کا یہ آرٹیکل جرمن زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔