بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان پر اگست میں طالبان کے کنٹرول کے بعد اپنے اپنے سفارت خانوں کو چھوڑ کر جا چکے بیشتر ممالک کابل میں اپنی موجودگی کے خواہش مند ہیں۔ بھارت بھی افغانستان میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے پر غور کر رہا ہے۔
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول اور نئی صورت حال میں اب جبکہ متحدہ عرب امارات، جرمنی، جاپان اور یورپی یونین سمیت متعدد ممالک کابل میں اپنے سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے کے امکانات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں بھارت بھی وہاں اپنی موجودگی کے امکانا ت پر غور و خوض کررہا ہے۔ اس دوران سابق بھارتی نائب صدر اور افغانستان میں سفیر رہ چکے حامد انصاری کا کہنا ہے کہ کابل میں اپنا سفار ت خانہ بند کر دینا بھارت کی غلطی تھی۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ گوکہ طالبان کو تسلیم کرنا ابھی “دور کی بات” ہے اور اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے لیکن ہر ملک افغانستان کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ افغان عوام کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاسکے۔ بھارتی عہدیدار کے مطابق بھارت کو امدادی اشیاء افغانستان بھیجنے کے سلسلے میں ہونے والی پریشانیوں کے مدنظر بھی نئی دہلی کابل میں اپنی موجودگی کے حوالے سے تبادلہ خیال کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو امدادی اشیاء بھیجنے کی اجازت دینے کے بعد یہ “شرط”عائد کردی تھی کہ پاکستان کی سرزمین سے ہوکر جانے والی راحتی اشیاء پاکستانی ٹرک لے کر جائیں گے اور بھارت کو ان کا کرایہ ادا کرنا ہوگا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق “افغانستان میں موجودگی کے مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ ہم طالبان کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ نئی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے آپ کے کچھ لوگ ہوں گے جو عوام کے ساتھ بھی رابطہ برقرار رکھیں گے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت بھارتی سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے تاہم یہ بات چیت ہو رہی کے کہ نئی دہلی کی اسٹریٹیجی کیا ہونی چاہئے۔
خیال رہے کہ 15اگست کو کابل پر طالبان کے کنٹرول کے دو روز بعد ہی بھارت نے وہاں سے اپنا سفارت خانہ خالی کر دیا تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار کے مطابق یہ سفارت خانہ بند پڑا ہے۔ لیکن اس میں نہ تو کسی طرح کی توڑ پھوڑ ہوئی ہے اور نہ ہی اسے کسی طرح کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ گرین زون میں جہا ں یہ سفارت خانہ واقع ہے اس علاقے کی طالبان حفاظت کر رہے ہیں۔
ہرات، مزارشریف، جلال آباد اور قندھار میں واقع بھارتی قونصل خانے بھی پوری طرح بند ہیں۔ وہ بھارتی سفارتی اہلکاروں کے کابل چھوڑنے سے پہلے ہی بند کردیے گئے تھے۔
بھارتی عہدیداروں کے مطابق افغانستان میں بھارتی اہلکاروں کو دوبارہ تعینات کرنے کے حوالے سے کئی متبادل موجود ہیں۔ نئی دہلی اقوام متحدہ کے احاطے میں اپنی ایک ٹیم تعینات کرسکتا ہے، مقامی افغان عملہ رکھ سکتا ہے یا سفارت کاروں اور سیکورٹی اہلکاروں کے ایک چھوٹے گروپ کو سفارت خانے میں تعینات کرسکتا ہے۔
سابق بھارتی نائب صدر حامد انصاری، جو افغانستان میں سفیربھی رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ بھارت کو حتی الامکان جلد از جلد افغانستان میں اپنا سفارت خانہ کھول دینا چاہئے۔
حامد انصاری نے ایک ویب سائٹ کے ساتھ انٹرویو میں کہا، “ہم دوحہ اور ماسکو میں طالبان کے ساتھ رابطے میں رہ چکے ہیں اس لیے یہ (سفارت خانہ کھولنا) محض رسمی کارروائی ہوگی۔”
سابق بھارتی نائب صدر کا کہنا تھا کہ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد جلد بازی میں اپنا سفارت خانہ خالی کردینے کا بھارت کا فیصلہ غلطی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سفارت خانہ خالی نہ کرنے کی صورت میں کوئی خطرہ درپیش تھا تو اس کے بارے میں عوام کو بتایا جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے سفارت خانے کو بند کردینے کا فیصلہ بظاہر ایک غلط فیصلہ دکھائی دیتا ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں بھارت کے ایک اورسابق سفیر امر سنہا نے ماضی میں وہاں بھارتی مشنوں پر ہونے والے حملوں کے مدنظر کابل میں سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے حوالے سے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے۔
سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی افغانستان میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے کے حوالے سے دیگر ملکوں کے اقدامات پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے اور انہیں دیکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔