کییف (اصل میڈیا ڈیسک) روسی فوج نے یوکرینی دارالحکومت کییف اور مشہور سیاحتی و بندرگاہی شہر ماریوپول پر گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کییف کے نواح میں جمعے سے لڑائی شدت اختیار کیے ہوئے ہے۔
روس کا یوکرین پر حملہ چوبیس فروری سے جاری ہے اور اب اس کی فوجی پیش قدمی خاصی سست بیان کی جا رہی ہے۔ ابھی تک روسی فوجیں یوکرینی دارالحکومت پر بھی قابض نہیں ہو سکی ہیں۔ کییف میں مسلسل حملوں سے خبردار کرنے والے سائرن بجانے کا بھی سلسلہ جاری ہے تا کہ لوگ پناہ گاہوں میں داخل ہو سکیں۔
مقامی افراد کے مطابق شہر میں دہشت اور خوف و ہراس کی کیفیت ضرور ہے لیکن مجموعی طور پر شہریوں کے حوصلے بھی بلند ہیں۔ کییف کے کئی علاقوں میں مقامی افواج کی حملہ آور لشکریوں کے ساتھ جھڑپیں بھی جاری ہیں۔
محاصرے کے شکار یوکرینی بندرگاہی شہر ماریوپول میں روسی فوج کی شیلنگ سے ایک تاریخی مسجد کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس مسجد میں اسی سے زائد قریب مقامی شہری پناہ لیے ہوئے تھے۔ ابھی تک اس مسجد پر گرنے والے گولوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں یا زخمیوں یا مسجد کو پہنچنے والے نقصان کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔
ترکی میں یوکرینی سفارت خانے نے یہ ضرور بتایا ہے کہ ماریوپول شہر کی تاریخی مسجد سلطان سلیمان میں کم از کم چھیاسی ترک باشندوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ ان میں چونتیس بچے بھی تھے۔
ماریوپول کی سلیمانیہ مسجد اور اسلامی ثقافتی مرکز اکتوبر سن 2007 میں کھولا گیا تھا۔ اس مسجد و مرکز کے لیے تعمیراتی سرمایہ ایک ترک تاجر صالح جہان نے دیا تھا، جو بحیرہ اسود کے کنارے پر واقع ایک اور شہر ترابزون میں پیدا ہوئے تھے۔ ترابزون ایک ترک شہر ہے۔
روس کی یوکرینی جنگ اب تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے مقاصد بظاہر ابھی تک حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یہ کہا ہے کہ یہ جنگ پلان کے مطابق ہے اور ان کے اس بیان سے بین الاقوامی حربی ماہرین متفق دکھائی نہیں دیتے۔
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ روسی فوج اب دارالحکومت کییف کو پوری طرح محاصرے میں لینے کی کوشش میں ہے۔ کییف کو گھیرے میں لینے کی روسی جنگی حکمت عملی شام اور چیچنیا میں بھی دیکھی گئی تھی۔ اس میں زمینی مزاحمت کو کچلنے کے لیے توپوں اور ہوائی حملوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اس وقت کییف کا شمال مغربی علاقہ روسی توپخانے کی زد میں ہے۔ اسی علاقے میں واقع ایک اسلحے کے گودام کو بھی ہدف بنایا جا چکا ہے۔ اس گودام پر حملے کے بعد سے چھوٹے بڑے دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یوکرین کے کھنڈر بنتے شہر ماریوپول میں مسلسل گولہ باری سے جمعہ گیارہ مارچ تک ہونے والی ہلاکتیں پندرہ سو سے تجاوز کر چکی ہیں۔ یہ شہر گزشتہ بارہ سے زیادہ ایام سے روسی فوج کے حملے کا سامنا کر رہا ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے اجتماعی قبروں کی کھدائی کا عمل بھی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ شہر کے میئر بھی کہہ چکے ہیں کہ روسی حملوں سے مرنے والوں کو دفن کرنے کا موقع بھی نہیں مل رہا۔
یہ امر اہم ہے کہ روسی افواج یوکرین میں اب تک کم از کم دو درجن ہسپتالوں اور طبی سہولیات کے مراکز کو نشانہ بنا چکی ہیں۔ اس کی تصدیق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی کی ہے۔ روسی فوج کا کہنا ہے کہ ایسے طبی مراکز کو ان کی مخالف فورسز اپنے اڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔