روس اور یوکرین جنگ نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ کچھ ہفتوں سے جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے، لیکن پھر بھی جنگ کے خطرناک نتائج کو دیکھتے ہوئے امید تھی کہ وقت رہتے ہوئے حالات کو سنبھالا جا سکے گا۔ حالانکہ ایسا نہ ہو سکا اور جنگ شروع ہو گیا۔یہ حقیقت ہے کہ جنگ کا آغاز بڑاآسان ہوتا ہے لیکن اس کے ختم ہونے کی کوئی مدت طے نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کے نتائج کے سلسلے میں کوئی حتمی پیش قیاسی ممکن ہے۔ اگر یہ جنگ پہلے ہی مرحلے میں نہ روکی گئی تو عین ممکن ہے کہ یہ تیسری عالم گیر جنگ بن جائے۔اس جنگ کا ذمہ دار کون ہے اور اس کے نتائج کا ملبہ کس کے سر ڈالا جائے گا۔
حالات انتہائی سنگین اور فکر انگیز ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں یہ کہنے سے فی الحال بچنا چاہیے کہ تیسری جنگ عظیم شروع ہونے والی ہے۔ پھر بھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حالات بے حد تشویشناک ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا جب سرد لہر کے بعد امن و امان کے نئے دور کی امید کی جا رہی تھی۔ اس وقت متحد امریکہ کو روس کے تئیں دوستی و صلح سمجھوتے کی راہ اختیار کرنی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس سے امن عالم اور انسداد اسلحہ میں بہت مدد ملتی۔ یہ روس کے لیے ہی نہیں امریکہ کے لیے بھی، یورپ و پوری دنیا کے لیے بھی بہتر ہوتا۔لیکن امریکہ نے یہ پالیسی نہیں اختیار کی اور روس کے مشکل حالات کا فائدہ اٹھا کر اس نے چھیڑ چھاڑ کی، پریشان کیا۔خصوصاً امریکہ کی اس پالیسی سے روس کو بہت پریشانی ہوئی کہ جو جغرافیائی اور تاریخی سطح پر روس کے سب سے نزدیکی ملک ہیں اور رہے ہیں، ان میں امریکہ نے رسائی کی اور وہاں روس مخالف حکومتوں کی تشکیل کی کوشش کی۔
ایسے ممالک کو نیٹو کا رکن بنانے کی کوشش کی۔ اگر نیٹو قوتوں کے میزائل روس کی سرحد کے پاس ہی تعینات ہو جائیں تو روس کی سیکورٹی خطرے میں پڑتی ہے۔ اس لیے روس نے کچھ وقت تک تو ان کوششوں کو برداشت کیا، لیکن بعد میں زیادہ سرگرم طور سے اس کی مخالفت کرنی شروع کی۔خصوصاً یوکرین کو لے کر روس زیادہ فکرمند رہا ہے۔ یہاں امریکہ نے روس مخالف حکومت کی تشکیل میں سرگرم کردار نبھایا۔امریکہ کا سب سے بڑا عسکری اور نظریاتی حریف سوویت یونین اب روس کی شکل میں ایک بار پھر امریکہ کیلئے چیلنج بن گیا ہے۔
امریکہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مشرقی بلاک پھر طاقت پکڑے اوراس کی سامراجیت کیلئے چیلنج بنے۔ جبکہ روس اور یوکرائن کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ تنازع اب نا صرف یورپ بلکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو بھی شدید متاثرکر رہا ہے۔یورپ میںبڑے پیمانے پر روایتی جنگ جاری ہے،روسی توپ خانے اور فضائی حملے اس وقت اہم اہداف کو تباہ کرنے اور بڑے شہری مراکز میں فوجی اثاثوں اور سویلین انفراسٹرکچر کو کنٹرول کرنے پر مرکوز ہیں۔ روسی فوجی دستے اور بھاری عسکری ساز و سامان اگلے مرحلے کی تیاری کے لئے مختلف علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے آنے والے دنوں میں کئی محاذوں پر مکمل زمینی حملے کا امکان ہے یعنی یوکرین کی شمال مشرق سرحدوں سے، مقبوضہ ڈونبیس خطے سے، مقبوضہ کریمیامیں جنوب سے اور قانونی مقبوضہ بیلاروس میں شمال سے زمینی پیش قدمی ہو سکتی ہے جس کا مقصدیہی ہے کہ علاقے پر تیزی سے قبضہ کر لیا جائے۔90ء کی دہائی میں جب سوویت یونین کا عروج ڈگمگانے لگا تو یوکرین ان پہلے ممالک میں سے تھاجس نے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے 24 اگست 1991 ء کو اپنی خودمختاری اور مکمل آزادی کا اعلان کیا۔ماسکو کو یورپ میں قابو کرنے کے لئے امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ جن کی سرحدین یوکرین سے ملتی ہیں میں فوج اتار کرہتھیار نصب کر دئیے۔
یاد رہے کہ 2014 ء میں ماسکونے جزیرہ نما کریمیا علاقے کو اپنے اندر شامل کر لیا تھا۔ماسکو کی ہمیشہ سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ یوکرائن اور جارجیا کو کسی بھی حالت میں نیٹو کا حصہ نہ بنایا جائے۔ پیوٹن کی یوکرائن پر حملے کے بعداب نئی پابندیوں کی صورت میں امریکہ اور مغرب کو تنبیہہ تعلقات بری طرح متاثر کر سکتی ہے جس پر سبھی تشویش کا شکار ہیں۔ روس مغربی ممالک پر دباؤ ڈالنے کی خاطر لیبیا سے مہاجرین کا ایک نیا سیلاب یورپ کی طرف موڑ سکتا ہے اس کی افواج شام میں بھی تعینات ہیںبالخصوص طرطوس کی بندرگاہ میں بحریہ نے ایک اڈہ بنا رکھا ہے۔ دوسری جانب یوکرین معاملہ میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنی غیر جانب داری کو واضح کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں دکھائی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ تازہ صورتحال نے ان کے ملک کو ایک مشکل موڑ پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔
ایک طرف روس کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت حساسیت سے پر ہے تو دوسری طرف نیٹو اور امریکہ کے ساتھ معاملہ کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ انہوں نے سنجیدہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح جنگ کی نوبت نہ آئے اور اسی لئے یوکرین اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار نبھانے کی بھی پیشکش کی تھی لیکن چونکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا اصرار جاری رہا کہ امریکی ادارہ خود اس سلسلہ میں بات کرے اس لئے زیادہ کامیابی نہیں مل پائی۔ ترکی نے امریکہ اور نیٹو ممبران کو بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ روس کے جوسکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ برلن میں سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر انہوں نے یہی بات دہرائی اور یورپ کے لیڈران کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وقت رہتے ہوئے روسی شکایتوں کو دور کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ البتہ جب روس نے یوکرین کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا تو ترکی نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
اگرچہ ترکی نے اس اقدام کی مذمت ضرور کی لیکن اس کے خلاف کوئی معاندانہ موقف اختیار کرنے سے گریز کیا اور خود کو ایک غیر جانب دار پارٹی کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روسی جہازوں کے لئے اپنے بحری گزرگاہوں کو بند نہیں کیا اور نہ ہی مغربی ممالک کے ذریعہ روس پر عائد شدہ کسی پابندی کا خود کو حصہ بنایا ۔اوراس نے یوکرین کو کسی بھی قسم کا عسکری تعاون پیش کرنے کا اشارہ تک نہیں دیا اور جو دفاعی مصنوعات یوکرین کے ہاتھوں فروخت کی گئی ہیں اس کے بارے میں ترکی کے وزیر دفاع نے یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیا ہے کہ فروخت ہونے کے بعد اب وہ ہتھیار خریدنے والے ملک کی ملکیت ہے۔ ترکی کے علاوہ ملک شام پر بھی روس اور یوکرین کے مابین اس جنگ کا اثر پڑنا لازمی ہے۔
لیبیا پر یوکرین بحران کا مثبت اثر وقتی طور پر پڑا ہے۔ الجزائر اور لیبیا ان ممالک میں سے ہیں جو یورپ سے قریب ہیں اور گیس کے قدرتی ذخائر سے مالامال ہیں۔ یورپ اس وقت روس کا متبادل ڈھونڈھ رہا ہے اور اس سلسلہ میں تمام گیس پیدا کرنے والے ممالک سے بات چیت جاری ہے۔ دنیا پر یک و تنہا حکومت کا خواہش مند امریکہ، روس کے چاروں جانب نیٹو افواج کی چوکیاں قائم کرچکا ہے۔ روس کے آس پاس کے یورپی ممالک کو مالی اور جنگی امداد فراہم کرکے امریکہ مسلسل روس کے دردسر میں اضافہ کرتا رہاہے۔ یوکرین بھی امریکہ سے جنگی امداد لینے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے ۔عالمی سطح پر دیکھیں تو اس وقت دنیا سنگین مسائل سے نبرد آزما رہا ہے، جیسے ماحولیاتی تبدیلی اور تباہ کن ہتھیاروں کی ڈور۔ جنگ و کشیدگی کے ماحول میں ان سبھی سنگین مسائل کے حل پیچھے چھوٹ جائیں گے اور دنیا میں اسلحہ کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ قلیل مدتی سطح پر مہنگائی بڑھے گی اور وبا کے سبب پہلے سے بحران کی شکار متعدد ممالک کی معیشت کی مشکلیں بڑھ جائیں گی۔