بلاشبہ یوکرین روس جنگ کو بنانے میں امریکہ کا اہم ترین کردار ہے لیکن صرف ہتھیار بیچنے کے لیے نہیں بلکہ اس بار مقصد روس کی سرحد پر اپنی جنگی طاقت کو بڑھانا مقصود تھا۔ واضح رہے کہ 1990 ء سے پہلے یوکرائن روس کے بعد سوویت یونین کا سب سے بڑا حصہ تھا۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن مشرقی یورپ کا حصہ بن گیا۔1949 ء میں میں نیٹو کے وجود میں آنے کے بعدوقتا فوقتا مختلف ممالک کے اس میں شامل ہونے کا عمل جاری رہا۔12 یورپی ممالک تو ابتدا سے ہی نیٹو کا حصہ تھے لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ نے مشرقی یورپ کے چھوٹے ممالک لٹویا، اسٹونیا،لتھونیا وغیرہ کو بھی نیٹو اتحاد میں شامل کر لیا۔ یہ ممالک یورپ کے مشرقی ممالک ہونے کے ساتھ ساتھ روس کے سرحدی ممالک بھی ہیں۔ ان ممالک کے نیٹو میں شامل ہونے پر بھی روس کو فطری طور پر اعتراض تھا لیکن یہ اعتراض اپنے عروج پر تب پہنچا جب سب سے بڑے سرحدی ملک یوکرائن کے نیٹو میں شامل کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ روس نے باقاعدہ طور پر یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنے سے نیٹو افواج باقاعدہ طور پر روس کی سرحد پر پہنچ جائیں گی اور اس کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
روس چاہتا تھا امریکہ تحریری طور پر ضمانت دے کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائے گا لیکن امریکہ نے تحریری طور پر ایسی ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے روس اس سے پہلے ”ڈونیسٹک” اور” لوہانسک” کے سرحدی علاقے جنہیں ”ڈون باس ریجن”کہا جاتا ہے اور جن میں پہلے سے علیحدگی پسندوں کا قبضہ تھا ، کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا اور ان میں اپنی فوجیں اتار دیں تاکہ یوکرائن پر دبائو ڈال کر نیٹو میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ اس دوران امریکہ روس کو مختلف پابندیوں کی دھمکیاں دے کر یوکرائن پر حملے سے باز رہنے کے لیے خبردار کرتا رہا۔اسی تناظر میں تیسری عالمی جنگ کے خطرے سے بھی آگاہ کیا جاتا رہا۔
حیرانگی تو یہ ہے کہ نیٹو کا حصہ بننا یوکرائن کے لیے نہیں امریکہ کے لیے اہمیت کا حامل تھا۔بڑے بڑے بیان دینے والے امریکہ نے روس کے حملے کے بعد پینترا بدل لیا اور بیان دیا کہ وہ جلد از جلد جنگ بندی چاہتا ہے لیکن یوکرائن کی اس جنگ کا حصہ نہیں بنے گا ، ایسا ہی اعلان نیٹو کی جانب سے بھی کیا گیا کہ وہ اس جنگ کا فریق بننے کے لیے تیار نہیں۔ یوکرین جس کی سرحدیں روس کے ساتھ ملتی ہیں، اسے رکنیت دے کر نیٹو یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے فوجی اڈے عین روس کی سرحد پر قائم کر دے۔ اس پر روس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وہ یہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ نیٹو کی سرحدیں اس کی سرحدوں تک آن پہنچیں۔ اس کے لیے روسی صدر نے امریکی صدر سے بات کرتے ہوئے اپنے تحفظات کو واضح طور پر بیان کیا۔ روس مختلف مواقع پر اس سلسلے میں اعتراض کرتا رہا ہے۔ نیٹو نے یہ وضاحت کی کہ ہم ابھی یوکرین کو رکنیت نہیں دے رہے۔ روس چاہتا تھا کہ یہ یقین دہانی کروائی جائے کہ یوکرین کو آئندہ بھی نیٹو کی رکنیت نہیں دی جائے گی۔ نیٹو نے ایسا نہ کیا اور ایسے اقدامات کرتا رہا، جس سے مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے رہے۔
امریکہ اور یورپ نے ہی مداخلت کرکے یوکرین میں روسی حمایت یافتہ حکومت کو تبدیل کیا ۔ اسے ہلا شیری دی اور ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا۔ انہی کی باتوں میں آکر یوکرینی صدر روس کو آنکھیں دکھاتے رہے اور جنگی فضا کو بڑھاوا دیتے رہے۔ ابھی کل تک وہ اپنے عوام کو یقین دلاتے رہے کہ امریکی صدر سے بات ہوئی ہے اور میری برطانوی وزیراعظم سے بات ہوئی ہے، بس وہ مدد کو پہنچا ہی چاہتے ۔امریکہ اور وہ ممالک جو بہت زور و شور سے یوکرین کی حمایت کے لیے اواز بلند کیے ہوئے تھے آج کہہ رہے ہیں کہ ہم نیٹو کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔ ظاہر ہے وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم یوکرین کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہیں، کیونکہ وہ ابھی تک نیٹو کا حصہ نہیں ہے۔ اسرائیل بظاہر یوکرین کی موجودہ حکومت کا حامی ہے، اسرئیل کو نیٹو کی سرپرستی حاصل ہے، روس سے بھی اس کے تعلقات ہیں، لیکن یہ روس ہی تو ہے، جس نے شام میں اس کے خواب چکنا چور کر دیے۔
اسرائیل بظاہر ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے، کیونکہ اسرائیل کی سرحد پر حزب اللہ اور اسرائیل کے اندر غزہ میں حماس جیسی تنظیموں کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے اور اب ایران کے صدر نے روسی صدر کو فون کرکے کہا ہے کہ موجودہ کشیدگی کے باعث نیٹو نے خواہ مخواہ علاقے میں فضا کو خراب کیا ہے اور پوری دنیا میں اس کا یہی طرز عمل ہے۔ اس صورت حال پر اسرائیل اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہا ہے اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ روس، شام اور ایران کے صدور کی مشترکہ تصاویر شائع کرکے مغرب کو خبردار کر رہے ہیں کہ اس اتحاد سے اسرائیل اور مسیحی دنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ ان سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اب وہ تمام ممالک جنھیں اب بھی توقع ہے کہ امریکہ ان کا ساتھ دے گا، وہ یوکرین کے حالات کو مد نظر رکھیں۔دوسری جانب امریکہ کی قیادت میں نیٹو ممالک اور روس کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر جاری تنازعے نے بھارت کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور اس پیش رفت پر قریبی نظررکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو امریکہ اور روس کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق امریکہ بھارت کو اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا ہے جبکہ بھارت تزویراتی طور پر روس کے قریب ہے۔ بھارت طویل عرصے سے روس کے دفاعی ساز و سامان اور ہتھیاروں کا خریدار رہا ہے۔ لداخ اور دیگر جگہوں پر چین کے ساتھ تعطل کے پیش نظر بھارت روس کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔امریکہ اور روس کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش میں بھارت نے 31 جنوری کو یوکرین کشیدگی پر بحث کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔روس اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے دوران بھارت چاہتا ہے کہ اس کے اسٹریٹجک پارٹنرز آپس میں نہ لڑ پڑیں تاکہ دہلی کو کسی بھی فریق کا ساتھ نہ دینا پڑے۔سفارتی ماہرین میڈیا میں اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ہرش ککڑ نے ایک مقامی انگریزی اخبار” دی سٹیٹس مین” میں لکھا کہ” غیر جانبداری بھارت کے لیے بہترین آپشن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی غیر جانبداری نے امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے”۔بھارت اپنی فوجی ضروریات کے لیے روس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ بھارت اپنا 55 فیصد فوجی ساز و سامان روس سے خریدتا ہے۔ بھارت نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود روس سے ایسـ400 میزائل سسٹم خریدا۔امریکہ بھارت پر اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے لیکن بھارت کا موقف ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور وہ ہتھیاروں کی خریداری میں قومی مفادات کو اولیت دیتا ہے۔بھارت چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے کواڈ گروپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ اتحاد کا خواہاں ہے۔حکومت نواز بھارتی نیوز چینل” زی نیوز ”نے اپنے ایک پروگرام میں بھارتی مخمصے کے بارے میں بات کی۔ پروگرام میں بتایا گیا کہ یوکرین کا مسئلہ نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن دونوں ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دوست ہیں۔
پروگرام میں کہا گیا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی کا یہ مطلب نہیں کہ روس کے ساتھ اس کی پرانی دوستی کمزور ہو گئی ہے۔ یوکرین کے معاملے پر روس کا امریکہ کے ساتھ تناؤ بڑھ گیا ہے اور پابندیاں ماسکو کو چین کے مزید قریب کر دیں گی۔اگر بھارت خفیہ طور پر یوکرین کے تنازعے پر امریکہ کا ساتھ دیتا ہے تو روس کی طرف سے بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ روس نے اب تک بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے میں کھل کر کسی کا ساتھ نہیں دیا ہے اور بھارت کو امید ہے کہ روس اس معاملے میں غیر جانبدار رہے گا۔ تاہم روس۔یوکرین جنگ کے تناظر میں اور روس پر مغرب کی پابندیاں بھارت کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بنیں گی۔ بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار رنجیت سین نے لکھاکہ امریکہ اب تک بھارت کا سب سے اہم اسٹریٹجک پارٹنر رہا ہے۔اگر بھارت کو چین سے مقابلہ کرنا ہے تو اسے امریکہ کے ساتھ شراکت داری کی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط رہے تو بھارت چین کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ لیکن بھارت امریکہ اتحاد روس کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔نومبر 2020 ء میں اقوام متحدہ نے کریمیا میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر یوکرین کی قرارداد منظور کی۔ اس وقت بھارت نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔اس سے قبل 2014 ء میں منموہن سنگھ کی حکومت نے کریمیا کے الحاق کے بعد روس پر مغربی پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔