امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر کے قومی سلامتی مشیر نے یوکرین میں روس کی مدد کرنے پر ایک اعلیٰ چینی عہدیدار کو براہ راست دھمکی دی۔ حالانکہ کریملن نے ان خبروں کی تردید کی کہ اس نے جنگ کے لیے چین سے فوجی آلات فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
ایسے وقت میں جب چین کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کی اس تشویش میں اضافہ ہورہا ہے کہ بیجنگ واشنگٹن سے مسابقت کے اپنے طویل مدتی مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے یوکرین کی جنگ کا استعمال کررہا ہے، امریکہ کے قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان اور چین کی خارجہ پالیسی کے مشیر یانگ جائیچی کے درمیان پیر کے روز روم میں ملاقات ہوئی۔
سولیوان امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے روس پر عائد پابندیوں سے بچنے میں ماسکو کی مدد کے حوالے سے بیجنگ کے رویے کی وضاحت چاہتے تھے۔ انہو ں نے متنبہ کیا کہ روس کی مد د کرنا چین کو مہنگا پڑے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بتایا، “قومی سلامتی مشیر اور ہمارے وفد نے یوکرین پر حملے کے پس منظر میں چین کی جانب سے روس کی مدد کے حوالے سے اپنی تشویش کو براہ راست اور نہایت واضح انداز میں اٹھایا اور یہ بھی بتایا کہ اس طرح کی مدد کرنے سے نہ صرف ہمارے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ چین کے تعلقات پر کیا مضمرات ہوں گے۔”
بائیڈن انتظامیہ کے دو عہدیداوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کو یقین ہے کہ چین نے روس کو یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ یوکرین میں اس کی مہم میں نہ صرف فوجی مدد کرے گا بلکہ مغرب کی جانب سے عائد کردہ سخت پابندیوں کے اثرات سے نکلنے میں مالی مدد بھی دے گا۔ ان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس تجزیے سے مغربی اور ایشیائی اتحادیوں کو آگاہ کردیا گیا ہے۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے بتایا کہ سات گھنٹے تک چلنے والی میٹنگ کے دوران سولیوان نے اس وقت روس کے ساتھ چین کی ہمدردی پر بائیڈن انتظامیہ کی گہری تشویش سے واضح طور پر آگاہ کیا۔
ساکی نے تاہم صحافیوں کے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا امریکہ کو یقین ہے کہ چین روس کو فوجی، اقتصادی اور دیگر امداد فراہم کررہا ہے۔
میٹنگ سے قبل سولیوان نے سخت لہجے میں چین کو متنبہ کیا تھا کہ وہ روس کی معیشت کو عالمی پابندیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے بچنے میں مدد نہ کرے۔ انہوں نے کہا تھا، “ہم کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے۔”
روس نے تاہم پیر کے روز چین سے کسی طرح کی امداد حاصل کرنے کی تردید کی۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا، “آپریشن کو جاری رکھنے کے لیے روس کے پاس اپنے وسائل موجود ہیں۔ جو، جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں، حسب منصوبہ جاری ہے اور اپنے وقت پر پوری طرح مکمل ہوگا۔”
دریں اثنا وائٹ ہاوس کے عہدیداروں کے مطابق بائیڈن یوکرین کے بحران پر اپنے اتحادیوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے یورپ کے دورے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گوکہ دورے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے تاہم بائیڈن 24 مارچ کو برسلز میں نیٹو کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کرسکتے ہیں۔
امریکہ نے چین پر روس کو ہتھیاروں اور دیگر فوجی سازو سامان کی سپلائی کے علاوہ یوکرین جنگ کے حوالے سے روسی پروپیگنڈے کو پھیلانے میں مدد کرنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
یوکرین پر روسی حملے نے چین کو دو بڑے تجارتی شرکاء، امریکہ اور یورپی یونین، کے درمیان مشکل صورت حال میں ڈال دیا ہے۔ چین ایک طرف ان ملکوں کے مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اس نے پہلے ہی یہ اعلان کردیا ہے کہ روس کے ساتھ اس کی دوستی کی “کوئی حد” نہیں ہے۔
چین نے روس کی جانب سے فوجی تعاون کی درخواست کی تردید کی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان زاو لیجیان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، “امریکہ یوکرین کے مسئلے پر چین کو نشانہ بنانے کے لیے غلط اطلاعات پھیلا رہا ہے۔ یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریقین تحمل سے کام لیں اور کشیدگی کو ہوا دینے کے بجائے صورت حال کو سرد کرنے کی کوشش کریں۔” انہوں نے کہا،”ہم صورت حال کو مزید خراب کرنے کے بجائے سفارتی حل کو فروغ دیں گے۔”