یوکرائن (اصل میڈیا ڈیسک) بیوکرائنی حران کو یورپی یونین کے عالمی کردار کے ضمن میں ایک اہم موقع سمجھا جا رہا ہے۔ اس بحران کے حوالے سے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ ایک مشترکہ موقف اپنانے کی کوشش میں ہیں۔
اس تناظر میں روسی افواج کا یوکرائنی سرحد پرجمع ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس فوجی اجتماع سے روس کا یوکرائن میں فوج کشی کا امکان بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری جانب یورپ کو مذاکراتی میز پر بیٹھنے کا موقع نہیں مل رہا۔
اسی ہفتے کے دوران امریکا اور روس کے سینیئر سفارتکاروں کے درمیان بھی ایک اہم ملاقات جینیوا میں ہو چکی ہے۔ اس ملاقات میں بھی یورپی یونین کا کوئی اہلکار شامل نہیں تھا۔
یورپی یونین کے لیے اسی تسلسل میں ایک اور سُبکی یہ بھی تھی کہ جب امریکی و روسی سینیئر سفارتکاروں کی بات چیت جنیوا سے برسلز منتقل کی گئی تو اس کے انعقاد کے لیے یورپی کونسل کیبجائے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا ہیڈ کوارٹر منتخب کیا گیا۔ پھر جمعرات کو بات چیت کا دور ویانا میں ہوا اور اس کا مقام تنظیم برائے سکیورٹی اور تعاون (OSCE) کا دفتر تھا۔
یوکرائن اور روسی افواج کا اجتماع ماسکو حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ کے قریب جنگ میں شریک ہونے والے تیار فوجی جمع کر دیے ہیں۔ مغربی اقوام کا مطالبہ ہے کہ روس ان فوجیوں کو پیچھے ہٹائے یا ان کی تعداد میں کمی لائے۔
روس اور امریکا میں اب جھگڑا کیا ہے؟
دوسری طرف روس کا کہنا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد اپنی افواج ان ممالک سے پیچھے ہٹائے جو سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ روس کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مشرق کی سمت بڑھنے کے علاوہ یوکرائن کی نیٹو اتحاد میں شمولیت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس صورت حال میں یورپی یونین ابھی تک دور سے معاملات کو صرف دیکھ رہی ہے۔
یونین کی رکن ریاستوں کے وزرائے خارجہ کی ایک اہم میٹنگ جمعرات اور جمعے کو فرانس کے شمال مغربی شہر بریسٹ میں جاری ہے۔ اس کا امکان ہے کہ اس میٹنگ میں یوکرائنی بحران پر کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاقِ رائے پیدا ہو سکتا ہے۔
ایک فرانسیسی سفارتکار نے میڈیا کو نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ یوکرائنی بحران کی صورت حال میں یونین پوری طرح ملوث ہے۔ مبصرین کو اس بحرانی حالات پر روس اور امریکا کی بات چیت میں یورپی یونین کے انتہائی معمولی کردار پر گہری تشویش لاحق ہے۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ روسی امریکی بات چیت دوسری عالمی جنگ کے بعد جیسی ہے جب یورپ کے مستقبل کے حوالے سے یہی دونوں طاقتیں (امریکا اور سابقہ سوویت یونین) بات چیت جاری رکھے ہوئے تھیں۔ جمعہ چودہ جنوری کو جرمن حکومت نے اس توقع کا اظہار کیا کہ یوکرائنی تنازعے پر مغرب اور روس کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سینٹر برائے جیو پولیٹکس کے ڈائریکٹر برینڈن سِمز کا کہنا ہے کہ اس وقت ضروری یہ ہے کہ یورپ اتحاد کا مظہر بن کر ایک زوردار طاقت کے طور ابھرے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی یونین کو مختلف ریاستوں کیبجائے ایک ملک کا روپ دھارنا ہو گا۔ سِمز کے مطابق ایک ایسا ملک جس کی ایک پارلیمنٹ اور ایک صدر ہو اور ایسی صورت ہی میں یہ ایک اہم جیو پولیٹیکل قوت بن سکے گا۔