تحریر: نجیم شاہ علماء کے سیاست میں آنے پر تو شاید کسی کو اختلاف نہ ہو لیکن عہدِ حاضر میں سعودی عرب سے زیادہ پاکستان میں اس مشورے پر عمل کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ علماء سیاست سے دور رہیں۔ ہو سکتا ہے سعودی وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری غلط فہمی میں پاکستان کے حالات کو سعودیہ کے حالات سمجھ بیٹھے ہوں۔ ڈاکٹر توفیق السدیدی کہتے ہیں کہ علماء کو چاہئے کہ وہ اپنے پیشے کا احترام کرتے ہوئے خود کو سیاست سے الگ کر دیں۔ قبل ازیں سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ بھی مذہبی پیشوائوں کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ سیاست سے دور رہیں۔ بات تلخ ہے، لیکن سچ ہے کہ جس طرح عوام الناس کے درمیان سے ہمارے سیاست دانوں کا ان کے کردار و عمل سے اعتماد و اعتبار ختم ہو گیا ہے، ٹھیک اسی طرح عہدِ حاضر میں ہمارے علمائے کرام جب سے دینی تعلیمات سے دور ہو کر اَنا، خودداری اور دینی و مذہبی تشخص کو فراموش کر کے عملی سیاست کا حصہ بننے کی کوشش میں مصروف ہوئے ہیں، ان کی بھی عزت، عظمت اور مرتبہ و وقار میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔
حالانکہ علماء کرام کو انبیاء کا وارث قرار دے کر انہیں اتنا بڑا درجہ عطا کیا گیا ہے، کہ وہ اُمت مسلمہ کی دینی، سماجی اور ثقافتی و تہذیبی تعلیمات کو فروغ دیں، تاکہ اُمت مسلمہ کے اندر نہ صرف دینی اور دنیوی احساسات و جذبات مؤجزن ہوں بلکہ ان کے اندر اتحاد و اتفاق، قناعت پسندی، کفایت شعاری، صبر و تحمل، بردباری، عدل و انصاف، ہمدردی، اخوت اور دوراندیشی پیدا کر کے اشرف المخلوقات ہونے کا جواز پیدا کریں۔ لیکن عصرِ حاضر میں ہمارے علماء نے اِن تمام دینی و مذہبی ترجیحات اورتعلیمات سے دور ہو کر آج کی گندی سیاست کا حصہ بن کر اپنے ملی فرائض اور دینی ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں دو قسم کی جماعتیں مصروفِ عمل ہیں، ایک خالصتاً سیکولر منشور رکھنے والی جماعتیں اور دوسری مذہب کے نام پر سیاسی جماعتیں ہیں۔ مقصد ہر دو کا ایک ہی ہے اور وہ ہے حصولِ اقتدار۔ سیکولر جماعتیں جمہوریت کو اپنے سیاسی اور انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، جبکہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں مذہب اور قرآن و سنت کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
Election
کامیابی کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو سیکرلر جماعتیں ہر انتخابات میں کامیاب ہوتی ہیں اور ہر دفعہ اقتدار انہی کے حصے میں آتا ہے اور مذہبی جماعتیں ان سیکولر جماعتوں کے اقتدار کے لئے ایک زینے کا کام دیتی ہیں۔ آج ہمارے ہاں مولوی صاحب کی وہ قدردانی نہیں رہی جو پہلے ہوتی تھی، خاص طور پر سیاست میں آنے کے بعد تو رہی سہی عزتِ دستار بھی ہاتھ سے جاتی رہی ہے۔ جب آپ کتاب کو کتاب اللہ کہہ کر اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کر دیں اور منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں اور پھر اُسی پارلیمنٹ سے شراب کی بوتلیں برآمد ہونے پر شرابیوں کے دفاع میں کہنا شروع کر دیں کہ نعوذ باللہ سیاست دان کوئی صحابہ تھوڑے ہیں کہ اُن سے غلطی سرزد نہ ہو تو پھر غیر تو کیا اپنے بھی تیر برساتے ہیں اور یہاں تک کہہ ڈالتے ہیں کہ ہمارے سیاسی علمائوں سے اسلام کے بجائے صرف اسلام آباد کی خدمت ہوئی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے علامہ اقبال کے شعر ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” کو بالکل مختلف معنی پہنا دیئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سیاست لازماً دین کے نام پر ہونی چاہئے اور دین کیلئے ہونی چاہئے۔ جبکہ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کرتے وقت یا سیاسی جدوجہد کرتے وقت سب مسلمہ دینی اخلاقیات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ ان اخلاقیات میں انصاف، مشورہ، مکالمہ کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ، جھوٹے پروپیگنڈوں سے اجتناب ، غلط دعوئوں سے احتراز، عوام کو غلط بیانی کے ذریعے گمراہ نہ کرنا، محنت اور ہر وقت ملک کی بھلائی کیلئے سوچنا جیسی اقدار شامل ہیں۔ اگر ان مسلمہ اخلاقیات سے ہٹ کر سیاست کی گئی اور امورِ مملکت انجام دیے گئے، تو اس کا نتیجہ ملک وقوم کے لیے تباہی اور بدترین ڈکٹیٹر شپ کی صورت میں نکلتا ہے۔ علماء کے سیاست میں آنے پر تو شاید کسی کو اختلاف نہ ہو لیکن عہدِ حاضر میں سعودی عرب سے زیادہ پاکستان میں اس مشورے پر عمل کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ علماء سیاست سے دور رہیں۔