آج آفس سے آیا تو سب سے پہلی خبر ملی کہ عمرشریف دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔ خبر سنتے ہی دل بیٹھ سے گیا کیونکہ عمر شریف کا میں ہی نہیں ہر بندہ بڑا فین تھا۔ میں عمر شریف کو بچپن سے ہی پسند کرتا تھا ۔ ان کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتا تھا ان کا کمپئرنگ کرنے کا سٹائل اتنا دل کش ہوتا تھا کہ ان کے بات کرنے سے پہلے ہی حاضرین کی ہنسی چھوٹ جاتی تھی۔ عمر شریف مزاح کی دنیا میں اپنا مقام آپ رکھتے تھے۔گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے عارضہ قلب، گردوں اور ذیابیطس کے مرض کی وجہ سے ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے عمرشریف جب زیادہ طبعیت خراب ہونے لگی تو ان کو بیرون ملک لے جایاگیا۔ان کو علاج کی غرض سے 28 ستمبر کو ائیر ایمبولینس کے ذریعے امریکا روانہ کیا گیا تھا تاہم طویل سفر اور تھکاوٹ کے باعث انہیں جرمنی کے اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں انہیں نمونیہ ہونے اور ائیر ایمبولینس میں فنی خرابی کے باعث اداکار کا جرمنی میں وقفہ طویل ہو گیا۔امریکا پہنچنے سے پہلے ہی وہ جرمنی میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
کامیڈی کے بے تاج بادشاہ عمر شریف 19 اپریل 1955 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے۔ انتہائی کم عمری میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ شرارتی نٹ کھٹ اور ہر فن مولا عمر شریف محلے میں گھومتے پھرتے بس لوگوں کی نقلیں اتارتے۔ کبھی چٹکلے سنا کر لوٹ پوٹ کرتے تو کبھی فلمی ستاروں کی آوازیں نکال کر پورے محلے کی آنکھوں کا تارا بن گئے تھے۔
عمر شریف بچپن سے ہی اپنے دور کے معروف کامیڈین منور ظریف سے خاصے متاثر تھے۔ منور ظریف کو کاپی کرتے ہوئے انہوں نے اپنے نام میں ‘ظریف’ کے ہم قافیہ لفظ ‘شریف’ کا اضافہ کیا تھا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ عمر شریف کی ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی، ایک بار ملنے کے لیے ہوٹل پہنچے تو منور ظریف نیند کے مزے لوٹ رہے تھے جبھی مایوس ہو کر واپس آ گئے۔ البتہ جب لاہور کا رخ کیا تو منور ظریف کے گھر کی دیواروں کو چوم کر ان سے عقیدت کا اظہار کیا۔
عمر شریف نے فنی سفر کی ابتدا سٹیج ڈراما ‘بائیونک سرونٹ’ سے کیا۔یہ عمر شریف کا پہلا کمرشل ڈراما تھا، جس میں انہوں حسب روایت خوب کامیابی سمیٹی۔ کراچی میں جب تھیٹر ڈراما سجتا، عمر شریف کا نام دیکھ کر ہی تماشائی اسے دیکھنے آتے۔عمر شریف نے80 کی دہائی میں آڈیو کیسٹ کے ذریعے ‘عمر شریف شو’ کے نام سے سیریز جاری کی، جس کے پہلے ہی حصے نے عوام میں مقبولیت حاصل کر لی، بالخصوص وہ افراد جو تھیٹر کا رخ نہیں کرتے تھے، ان تک عمر شریف کے دلچسپ جملے اور برجستہ کامیڈی پہنچنے لگی۔ عمرشریف کی اس سیریز کی پانچ کیسٹیں آئیں جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں۔
عمر شریف کے یوں تو کئی سٹیج ڈرامے نے دھوم مچائی البتہ ‘بکرا قسطوں پہ’ ان میں سب سے زیادہ مقبول رہا جس کے پانچ سیزن آئے۔ عمر شریف کے مطابق اس ڈرامے کا پہلا حصہ انہوں نے صرف دو دن میں لکھا تھا۔بکرا قسطوں پے اور بڈھا گھر پے ہے جیسے ڈراموں نے پاکستان میں خوب نام کمایا۔
عمر شریف نے اپنا نام فلمی دنیا میں بھی کمایا۔ 1986 میں حساب اور خاندان نامی فلموں میں کام کیا ۔ 1992میں اپنی ہی ڈائریکشن میں تیار ‘مسٹر 420’ سینیما گھروں میں سجائی تو اپنے مزاحیہ جملوں، دلچسپ کہانی اور موسیقی کی بنا پر اس فلم نے دھوم مچا دی۔ عمر شریف کو ‘مسٹر 420’ پر بہترین اداکار سمیت چار نگار ایوارڈز ملے۔ وہ واحد آرٹسٹ ہیں جنہوں نے ایک ہی سال میں چار نگار ایوارڈ حاصل کیے۔
اس بیمثال پذیرائی کے بعد عمر شریف نے ‘مسٹر چارلی،’ ‘مس فتنہ،’ ‘چلتی کا نام گاڑی،’ ‘جھوٹے رئیس،’ ‘بہروپیا،’ ‘چاند بابو،’ ‘کھوٹے سکے’ اور ‘چھپا رستم’ جیسی بہترین فلموں کا تحفہ اپنے چاہنے والوں کو دیا۔ تمغہ امتیاز حاصل کرنے والے عمر شریف عمران خان کے شوکت خانم اسپتال کے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف شوز کر چکے ہیں۔ اسی ہسپتال سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں بھی خود بھی ایک اسپتال تعمیر کرایا۔عمر شریف کا فنی سفر پانچ دہائیوں پر مبنی رہا۔
عمر شریف آج اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کانام عوام کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ ان مزاحیہ نگاری ، دل کو لبھاتے جملے اور ان کے اداکاری کے جوہر صدیوں یاد رکھے جائیں گے۔ عمرشریف کامیڈی کی دینا ایک ایسا باب ہے جس کا آج اختتام ہو گیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے گھر والوں کو صبروجمیل عطا فرمائے۔