تحریر : شاہ بانو میر (ٴالعلق ) (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے (عالم کو) پیدا کیا٬ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا ٬ اور پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے٬ جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اسے علم نہ تھا مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو غنی دیکھتا ہے٬ کچھ شک نہیں کہ (اسکو ) تمہارے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے٬ ساڑھے تین سال سے جاری قرآن پاک کا ترجمہ بلاخر الحمد للہ 7 نومبر کو تکمیل تک پہنچا دوران سفر بہت کچھ احاطہ تحریر میں لانے والا ہے انشاءاللہ وہ بعد میں تحریر کروں گی٬ پروگرام تھا کہ دسمبر کی چھٹیوں میں سب بچے گھر ہوں گے اور چھوٹے بیٹے کا مل کر خیال رکھیں گے اور ہم اس خاص رحمت پر اللہ اک شکر ادا کرنے کیلئے عمرہ کریں گے۔
عمرہ کی ادائیگی کے بعد پاکستان جا کر والدہ سے ملاقات کریں گے٬ لیکن سبحان اللہ سب کا کہنا ہے کہ میں نے عمرہ سے پلے حج کر لیا٬ محض دو دن کے اندر پاکستان اچانک جانا پڑا والدہ علیل تھیں ان کی بہت دعا تھی کہ عمرہ تک بہت وقت ہے وہ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں٬ سب نے کہا کہ اللہ پاک نے آپکو والدہ کی زیارت کروائی جو حج جیسی عظیم ہے۔
والدہ کی قدم بوسی ہو گئی 15 دنوں میں جو خدمت کر سکی وہ کی اور خوب دعائیں سمیٹیں ٬ 25 کو واپسی تھی مگر دھرنے کی وجہ سے راستے بند ملے اور 29 کو واپسی ہوئی ٬ اگلے ہفتے اللہ کی توفیق سے استاذہ اور والدہ کی دعاؤں سے انشاءاللہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے جانا ہے شکر ادا کرنا ہے کہ اس نے مجھ جیسی گناہ گار کو نہ صرف اپنے قرآن پاک کیلئے چن کر اسے لکھوا لیا ٬ بلکہ ایسی اعلیٰ استاذہ ایک کے بعد ایک عطا کیں کہ سبحان اللہ ٬ سب سے التماس ہے کہ کسی کی کہیں کسی وجہ سےمیں نے کبھی دلشکنی کی ہو تو سب معاف کر دیں٬ کہ ترجمہ پڑھ کر اب صرف قرآن پاک کا ورد زباں پر ہے اور یہی سمجھ آئی ہے کہ قرآن مجید صرف معاف کرنے توبہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔
سورت توبہ کو پڑھنے سے پہلے استاذہ کا اصرار تھا کہ تفسیر سن کر 2 کام کر لیں تو آگے قرآن مجید کا سفر جاری رکھیں ورنہ آج قرآن کا سفر یہیں ختم کر دیں٬ کہ اللہ نے آپکو وہ فہم عطا نہیں کیا جو اس قرآن کا تقاضہ ہے٬ تفسیر سنی کہ سب کو معاف کرنا ہے اور اپنے لئے توبہ استغفار لازم کرنا ہے٬ قرآن پاک کو چھوڑنے کا حوصلہ تو کر ہی نہیں سکتی تھی٬ لہٰذا دل کو قائل کیا اور é نفل پڑھ کر اللہ سے توفیق مانگی کہ مجھے ہمت دے میں ہر اس انسان کو معاف کر دوں جس نے جانے انجانے میں مجھے تکلیف دی ہو۔
سب کو سچے دل سے معاف کر دیا ٬ اپنے لئے استغفار دوسرا تقاضہ تھا کہ اپنے لئے استغفار کو معمول بنا لیا٬ تا کہ عاجزی پیدا ہو اور تکبر ختم ہو یہ تکبر ہی تو ہے جو ہمیں انسان سے نعوز باللہ خُدا بنا کر اللہ کا مجرم بنا دیتا ہے٬ ٬ ساڑھے تین سال کا عرصہ زندگی کو بالکل بدل گیا٬ سب کو معاف کر کے استغفار کر کے گویا دل دماغ ہلکے ہو گئے ٬ اب اس دل میں دماغ میں کسی انسان یا اس سے متعلقہ کوئی پریشانی نہیں ٹھہرتی ٬ ہر چیز جیسے کبھی سنی ہی نہ ہو دیکھی ہی نہ ہو٬ آخرت کا خوف اور اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں انشاءاللہ لینا ہے صرف یہی فکر اور اسی کی کوشش ہے۔
میرا نامہ اعمال قرآن کی رو سے صرف اللہ رب العزت نے دیکھنا ہے ٬ کیس بندے کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ مجھے جزا دے یا سزا دے تو پھر بندوں سے کیا غرض؟ فکر بھی صرف اللہ کی ہی ہونی چاہیے٬ جس نے چیک اینڈ بیلنس کرنا ہے٬معاف کر کے جب آپ ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں تو پھر محسوس ہوتا ہے کہ بے وجہ کے وزن اٹھا کر خود کو بھاری کرنا نا سمجھی تھی٬ رقابت بغض نفرت یہ سب آپ سے روحانیت چھین لیتے ہیں۔
آپ دین کیلیۓ کام نہیں کر سکتے٬ والعصر پڑہیں کہ انسان بے شک گھاٹے میں ہے٬ عمر عزیز نہ جانے کتنی کم ہے٬ ایسے میں ہم اپنی آخرت کی فکر کی بجائے ان باتوں میں گُم ہو گئے جن کا ہم سے کوئی تعلق ہی نہیں٬ جو بندے اور اللہ کا براہ راست معاملہ ہے٬ خشیعت یعنی اللہ سے ڈرنا اور اس ڈر کے بعد سوچ سمجھ کر الفاظ کو لکھنا یا بولنا دراصل قرآن پاک کا فرقان ہے۔
قرآن پاک کا مکمل ترجمہ پڑھنے کے بعد انسان صرف آنسوؤں سے رو کر شکر ہی ادا کر سکتا ہے کہ اس رب نے چنا اپنے کلام کیلئے ٬ مگر اس کلام کو دل میں محفوظ کرنے کیلئے آپ کا دل بالکل خالی اور شفاف ہونا چاہیے ٬ جس میں سوائے ذکر اللہ اور فکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کچھ نہ ہو٬ بندوں سے اوپر اٹھ کر معاملات کو بڑی سوچ اور بڑے فہم کے ساتھ سمجھنا ہے دنیا کی خواہشات پھر اس میں مقابلہ کی دوڑ سے بہت دور لے جاتا ہے قرآن مجید دنیاوی کام کرنے سے قرآن پاک نہیں روکتا لیکن کچھ حدود قیود استاذہ سمجھاتے ہیں جن کی پابندی اس علم کی بنیاد ہے۔
گھر میں بیٹھ کر کام کیا جا سکتا ہے دین آپکو اجازت دیتا ہے٬ اپنے دین کی سربلندی کیلئے قلم کا جہاد وقت کی ضرورت ہے اور اسے ہر ممکنہ طور پے ہم سب اہل قلم کو جاری رکھنا چاہیے٬ یکسو ہوئے بغیر قرآن اللہ دل میں داخل نہیں کرتا یہ جب پڑھا تو فون ختم ٬ فیس بُک چھوڑ دی ٬ اور واقعی بہت فرق پڑا یکسوئی ملی اور زیادہ دل اللہ کے قریب ہوا٬ انشاءاللہ عمرے سے واپسی پر اللہ نے چاہا تو بڑے استادوں سے اب حدیث کا علم لینا ہے اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کی فصاحت سے تفسیر جاننی ہے۔
ابھی تو یہ خوشی ہے کہ اللہ پاک نے کیسے عمرہ سے پہلے والدہ کی زیارت کروا کے مختصر سی خدمت کا بہترین موقعہ دے کر دل کو پرسکون کر دیا٬ میرے استاد کہتے ہیں کہ آپ نے عمرہ سے پہلے حج کیا٬ ؤجِسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے٬ اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لئے تم کوئی ولی و مرشد نہیں پا سکتے ٬ الکھف 17 جاری ہے۔۔۔۔۔