بھارت دنیا کا وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کسی بھی مسلم ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے بقول 27 کروڑ سے زائد جبکہ بھارتی حکومت کے مطابق 18 کروڑ لیکن اتنی بڑی آبادی رکھنے کے باوجود ان کے گرد گھیرا اور شکنجہ ہر روزنت نئے انداز میں سخت سے سخت تر ہو رہا ہے۔ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے’ بھارتی مسلمانوں کی تو جیسے شامت ہی آگئی ہے۔ نریندر مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد پہلے 3 ماہ میں 600 سے زائد مسلم کش فسادات ریکارڈ کئے گئے ہیں اور اس کا اعتراض خود ہندو اپوزیشن رہنمائوں نے کیا ہے، یعنی ہر روز سات سے زائد مقامات پر مسلمانوں کو مارا گیا اور انہیں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا(جوبے شمار واقعات سامنے نہیں وہ اس کے علاوہ ہیں)۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر مسلم کش واقعات کے باوجود میڈیا میں اس سب کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں ملی۔اسی لئے تو 25 اکتوبر کو ریاست راجستھان کے علاقے بھگوان پور کے مدرسہ دارالعلوم کے حفظ قرآن 16 سالہ طالب علم حافظ امیر الدین خاں کو ہندوئوں نے باندھ کر جو جلایا تھا، پربنگال امام ایسوسی ایشن کے صدر محمد یحییٰ نے کلکتہ میں پریس کانفرنس کے دوران انتہائی بے بسی اور لجاجت میں کہا کہ بھارتی میڈیا ان کے ساتھ دوہرا معیار رکھتا ہے۔مسلمانوں کے اس بچے کو زندہ جلایا گیا لیکن اسے واقعہ کو بالکل اہمیت نہیں دی گئی جبکہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے بم دھماکوں کی جھوٹی خبریں بھی ان سے منسوب کر کے دن رات چلائی جاتی ہیں۔
امیر الدین کے مقدمہ کا بھی کچھ نہیں بنا اور کوئی گرفتار تک نہیں ہوا۔یہ تو ایک معاملہ ہے ،دوسری طرف حال یہ ہے کہ آج کل تو بھارت میں دہشت گرد ہندو تنظیمیں کھلے عام عالمی میڈیا کے سامنے آکر مسلمانوں کو مارنے ‘ ہندو بنانے اور ختم کردینے کے اعلانات اور پھر عملی اقدامات کرتی ہیں لیکن آج تک امریکی حکومت’ اقوام متحدہ یا کسی دیگر ملک یا ادارے نے کسی ہندو تنظیم کو دہشت گرد قرار نہیں دیا۔
بھارتی ہندوئوں کی ایک بڑی ایسی ہی شدت پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد ہے جس کا عالمی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر پراوین توگاڑیہ ہے۔ ماہ اگست 2014 میں توگاڑیہ نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انہوں نے ایک ایسا منصوبہ پیش کردیا ہے جس کے ذریعے وہ بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنا رہے ہیں۔ یہ تنظیم اور اس جیسی دیگر تنظیموں مثلاً بجرنگ دل’ شیوسینا’ راشٹریہ سیوک سنگھ وغیرہ عرصہ دراز سے کہتی آئی ہیں کہ بھارت بلکہ اس سارے خطے میں رہنے والے سبھی لوگ پہلے ہندو تھے۔
بعد میں انہوں نے مذہب تبدیل کرکے اسلام اور عیسائیت وغیرہ کو اختیار کیا’ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم انہیں دوبارہ سے واپس ان کے اصل مذہب یعنی ہندو مت پر لے کر آئیں۔ پراوین توگاڑیہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ بھارت کے ایک ایک شہر اور گائوں میں ایسی انجمنیں قائم کر رہے ہیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنائیں گی۔ ساتھ ہی توگاڑیہ نے اپنی کامیابی جتاتے ہوئے بتایا کہ ہم اب تک 7 لاکھ لوگوں (مسلمانوںاور عیسائیوں)کو دوبارہ ہندو بناچکے ہیں۔اور 40 ہزار ہندوئوں کو مسلمان بننے سے روکا گیا ہے۔
Global Media
اتنی بڑی خبر اور عالمی میڈیا کے سامنے کھلی پریس کانفرنس کے باوجود کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ اگر اس سے ہزار گنا چھوٹا اعلان کسی مسلم ملک خصوصاً پاکستان میں کوئی شخصیت یا تنظیم کرتی تو پھر آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا حشر ہوتا۔ اس حوالے سے 5 ستمبر 2014 کو بھارتی مسلم اخبارات نے خبر شائع کی کہ ریاست مدھیہ پردیش کے علاقہ شیوپوری میں4 دلت (نچلی ترین ذات کے) ہندوئوں نے برہمنوں کے رویے اور سلوک سے تنگ آکر اسلام قبول کرلیا تو وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکن وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے ان دلت نو مسلموں کو دوبارہ ہندو بنانے کا پروگرام ”گھر واپسی” منعقد کیا اورانہیں دوبارہ ہندو بنا کر چھوڑا۔ اخبارات نے لکھا کہ ان نومسلموں کے اسلام قبول کرتے ہی پولیس نے انہیں گرفتار کرکے جیل ڈال دیا تھا کیونکہ ریاست مدھیہ پردیش میں باقاعدہ قانون ہے
کوئی شخص مذہب تبدیل نہیں کرسکتا۔ (خود کو سب مذاہب کے لئے یکساں سلوک کے دعویدار ‘سیکولر کہلانے والے بھارت کا اصل چہرہ یہ ہے) اسی سلسلہ میں آج کل بھارت کے اندر ”لوّ جہاد” Love Jihad کے نام سے ایک بڑی تحریک تمام دہشت پسند ہندو تنظیمیں چلا رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت کے مسلمان نوجوان ہندوئوں کی لڑکیوں کو عشق ومحبت کے جال میں پھانستے ہیں او رپھر ان سے شادیاں رچاتے اور انہیں مسلمان کرتے ہیں۔
ہندوئوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمان نوجوان چونکہ خوبصورت ہوتے ہیں’ اس لئے ہندو لڑکیاں ان کی جانب زیادہ مائل ہوتی ہیں اور یوں ہندو لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان لڑکوں سے شادیاں کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکمران پارٹی بی جے پی اس حوالے سے مخالفانہ مہم میں سب سے بڑھ چڑھ کر شریک ہے جس کے گورکھپورکے علاقے سے منتخب ایک رکن پارلیمینٹ آدتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں بیان دیا کہ اگر کوئی مسلم ایک ہندو لڑکی کا مذہب تبدیل کرتاہے تو ہمیں سو مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرنا چاہئے۔ دوسری طرف شیوسینا نے کہا ہے
مسلمان دہشت گرد تنظیمیں لشکر طیبہ ‘ سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) اور القاعدہ نے ہندوستان کے ہندؤوانہ تشخص کو تبدیل کرنے کے لئے اعلان جہاد کر رکھا ہے ۔ ”لو ّ جہاد” بھی انہی کوششوں میں سے ہے۔ گزشتہ سال ماہ ستمبر میں ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں جو مسلم کش فسادات ہوئے تھے’ ان کے بنیادی مرکزی محرکین میں سے ایک بھارتی رکن پارلیمان سنگیت سوم نامی ہندو انتہا پسند رہنما بھی شامل تھا جس نے اب ”لو ّ جہاد” کے نام پر اس کے خلاف پورے ملک کی سب سے بڑی ہندوپنچایت بلانے کا اعلان کردیا ہے۔
مظفر نگر میں مسلمانوں کے قتل عام سے قبل بھی ایک لاکھ ہندوئوں کی ایک پنچایت ہوئی تھی جس کے بعد واپسی پرہندوستانی مسلمانوں کو فوری طور پر نشانے پر رکھ کر لوٹ مار اور مار دھاڑ کا بازار گرم کردیا گیاتھا۔ ریاست مدھیہ پردیش سے ایک ریاستی رکن اسمبلی نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوئوں کے کسی تہوار یا تقریب میں داخل ہونے نہ دیا جائے ‘اگر وہ آنا چاہیں تو انہیں پہلے ہر صورت ہندو بننا ہوگا۔
”لو ّ جہاد” کے نام پر مسلمانوںکے خلاف مخالفانہ اور نسل کشی مہم اس قدر تیز ہو رہی ہے کہ اب اس کے نام پر بھارت کے کئی شہروں میں قتل و غارت گری شروع ہے۔ ریاست اترپردیش کے دارالحکومت مشہورشہرر انچی میں 24 اگست 2014 کو ہڑتال اور پھر مار دھاڑ بھی ہوئی ہے۔ کہا گیا کہ بھارت کی ملکی سطح کی شوٹنگ چیمپئن تارا سہدیونے ایک مسلمان سے شادی کے بعد اپنا ہندو مذہب چھوڑکر اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس خبر کی کسی نے تصدیق کرنا بھی مناسب نہ سمجھی اور پہلے ہڑتال تو پھر مسلمانوں پر حملے شروع ہوگئے۔
اس موقع پر ہندوئوں نے مسلمانوں کی دکانوں’ ریڑھیوں’ ٹیکسی ڈرائیوروں اور رکشہ ڈرائیوروں کو چن چن کر نشانہ بنایا’کئی مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا اور جو کچھ سامنے آیا’ توڑ پھوڑڈالا۔ اس کے ساتھ پولیس نے بھی کارروائی کرتے ہوئے 3 گھر اور 6 گاڑیاں سیل کردیں اور تارا سہدیو اور مسلمان نوجوان رجب الحسن سمت کی تلاش شروع کردی۔
ہندوئوں نے”لو جہاد” کی اصطلاح بھی اسلام کے رکن عظیم جہاد کو بدنام کرنے کے لئے پوری سازش کے ساتھ خود گھڑی ہے جس کے لئے اب ہندوئوں نے انتہائی گھنائونا الزام یہ بھی عائد کیا ہے کہ لو ّ جہاد کے مراکز دینی مدارس ہیں۔ بی جے پی کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ آدتیہ ناتھ نے 14 ستمبر 2014ء کو اس حوالے سے کھل کر بیان دیا اور مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کے دینی مدراس کے طلباء ہیں جو سب سے زیادہ ان کی ہندو لڑکیوں کو پھانستے ہیں اور یہیں سے ہنداور ہندوئوں کے خلاف جہاد کی ابتدا بھی ہوتی ہے۔ اس نے اس کے ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کے تمام دینی مدارس پر سرے سے ہی پابندی عائد کردی جائے۔ اس مطالبے کے بعد مسلمانوں میں شدید غم و غصہ ہے لیکن بھارت کے مسلم رہنما اور عوام ہندو تنظیموں ‘ حکومت اور ہندو لوگوں کے سامنے سوائے رونے دھونے اور بیان دینے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔