کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہونے کا اعلان کر رکھا ہے۔ مظاہرین کشمیر سے پاکستانی اور بھارتی افواج کے انخلا کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) نے جمعے کے روز ‘فریڈم مارچ‘ شروع کیا تھا۔ ریلی کے شرکاء نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہونے کا اعلان کر رکھا تھا۔
پاکستانی حکام نے لائن آف کنٹرول سے آٹھ کلومیٹر دور جسکول کے مقام پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ان کا راستہ روک دیا۔ اس کے بعد سے ریلی کے شرکاء دھرنا دیے ہوئے ہیں اور رکاوٹیں ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جے کے ایل ایف کشمیر کی خود مختاری کی حامی ہے لیکن نئی دہلی حکومت کا الزام ہے کہ یہ تنظیم پاکستان سے مالی معاونت حاصل کرتی ہے۔ بھارتی حکام نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں جے کے ایل ایف کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے رکھا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کے روز اپنے ٹوئیٹر پیغامات میں مظاہرین سے لائن آف کنٹرول عبور نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے بھارتی بیانیہ مضبوط ہو گا۔
اس حوالے سے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کی ریلی کے منتظم توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا مطالبہ لائن آف کنٹرول کو پاکستان اور بھارت کے مابین مستقل سرحد تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے گیلانی نے کہا، ”ہم نے یہ ریلی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف نکالی ہے۔ ہم بھارتی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیر میں کرفیو ختم کریں، لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی دیں اور قیدیوں کو رہا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم پاکستان اور بھارت سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ کشمیر سے اپنی اپنی فوجیں نکالیں اور اسے غیر فوجی علاقہ قرار دیں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کو کشمیر کا انتظام سنبھالنا چاہیے اور ریفرنڈم کا انعقاد کرانا چاہیے۔‘‘
توقیر گیلانی نے اسلام آباد حکام پر کشمیریوں کی حالت زار پر صرف بیان بازی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ”اقوام متحدہ کی قراردادیں دونوں طرف کے کشمیریوں کو لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی اجازت دیتی ہیں لیکن پاکستانی حکام نے نقل و حرکت روک دی ہے جو کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
بھارت نے پانچ اگست کے فیصلے کے بعد سے جموں و کشمیر میں کم از کم چار ہزار افراد کو حراست میں لے رکھا ہے۔ علاوہ ازیں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بلیک آؤٹ کا سلسلہ بھی اب تک جاری ہے۔ بھارتی فیصلے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بھی مزید کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔ دونوں ممالک پورے جموں و کشمیر پر حق کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
کشمیر کا تنازعہ سن 1947 سے جاری ہے۔ تاہم کچھ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ سن 1980 کی دہائی میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستانی مداخلت کے بعد سے کشمیر کا مسئلہ مذہبی رنگ میں رنگا گیا۔ ایسے مبصرین کی رائے میں اگر پاکستان کشمیر ہی میں اٹھنے والی تحریکوں کی حمایت کرتا تو کشمیر کے مسئلے کو عالمی دنیا کی زیادہ توجہ حاصل ہو سکتی تھی۔
موجودہ صورت حال میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی آسانی سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں کشمیری مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں بھی نئی دہلی حکومت کو عالمی سطح پر تنقید کا بمشکل سامنا کرنا پڑے گا۔
سٹاک ہوم میں خود مختار کشمیر کے لیے لابنگ کرنے والی تنظیم ‘نارڈک کشمیر آرگنائزیشن‘ کے ڈائریکٹر طلعت بھٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان کی کشمیر پالیسی دوہرے معیار اور منافقت پر مبنی ہے۔ اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے لیکن پاکستان اپنے زیر انتظام کشمیر میں شہریوں پر جبر کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کشمیر کے تمام علاقے کو متنازعہ قرار دیتی ہے۔‘‘
برسلز میں قائم ‘ساؤتھ ایشیا ڈیموکریٹک فورم‘ سے وابستہ محقق زیگفریڈ او وولف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کشمیر کے تنازعے میں شمولیت اسے مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے کیوں کہ عالمی برادری پاکستان پر دہشت گردی کی مبینہ حمایت کا الزام عائد کرتی ہے۔
وولف نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مقصد بھارت کو کمزور کرنا ہے۔ کشمیر میں جنگجوؤں کی حمایت کر کے پاکستان نے بھارت کو موجودہ صورت حال کی جانب دھکیل دیا ہے۔ پاکستان حکام کا خیال ہے کہ اگر بھارت کشمیر کے تنازعے میں اپنی فوج ملوث کرے تو اس سے بھارت کی معیشت کو نقصان پہنچے گا اور اس کے عالمی تشخص بھی متاثر ہو گا۔ علاوہ ازیں بھارت کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پاکستانی فوج کو ملک میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کا جواز بھی مل جاتا ہے۔‘‘
پاکستان بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور اسلام آباد حکومت کا اصرار ہے کہ وہ کشمیریوں کی صرف سفارتی اور سیاسی سطح پر حمایت اور مدد کر رہی ہے۔