اسٹاک ہوم (جیوڈیسک) سوئیڈن کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک پینل نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے حق میں فیصلہ دیدیااور لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں رہنے پر مجبور کیے جانے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
جولین اسانج نے اقوامِ متحدہ میں درخواست دی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں غیر قانونی طور پر سفارتخانے کے اندر رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جمعرات کو فیصلہ آنے سے قبل اسانج نے کہا تھا کہ اگر فیصلہ میرے خلاف آیا تو میں خود کو برطانوی حکام کے حوالے کردوں گا تاہم اگر فیصلہ حق میں آیا تو میں توقع کرتا ہوں کہ میرا پاسپورٹ مجھے واپس دے دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اسانج برطانیہ سے سویڈن ملک بدری سے بچنے کے لیے جون 2012 سے مغربی لندن کے علاقے نائٹس برج میں واقع ایکواڈور کے سفارتخانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں ۔جولین اسانج کو سویڈن میں دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام کا سامنا ہے،جس کی تردید کرتے ہیں۔ انھوں نے 2014 میں ’بلاوجہ یا ذاتی عناد کی بنا پر حراست‘ کے معاملات کا جائزہ لینے والے اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ کو درخواست دی تھی کہ انھیں ’بلاوجہ حراست‘ کا سامنا ہے اور اگر وہ سفارتخانے سے نکلے تو انھیں لازمی گرفتار کیا جائے گا۔
جمعرات کو اس درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے پینل نے اسانج کے حق میں فیصلہ دیا۔ اقوامِ متحدہ کا یہ پینل قانونی ماہرین پر مشتمل ہے جس نے اس معاملے میں برطانیہ اور سویڈن سے ثبوت جمع کیے۔ یہ پینل ماضی میں بھی حراستوں کے قانونی یا غیرقانونی ہونے کے بارے میں رائے دے چکا ہے۔تاہم برطانوی یا سویڈش حکام اس کے رائے ماننے کے پابند نہیں اور برطانوی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ اسانج کو سویڈن کے حوالے کرنے کا پابند ہے۔
گذشتہ دسمبر میںایکواڈور نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ سویڈن کے حکام اسانج سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔جولین اسانج کو یہ بھی خدشہ ہے کہ سویڈن ملک بدری کے بعد سویڈش حکام انھیں امریکا بھیج دیں گے، جہاں خفیہ امریکی دستاویزات شائع کرنے کی وجہ سے ان پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔