تحریر: سید انور محمود حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی سے عام آدمی کا کوئی لینا دینا نہیں، کمی کے ثمرات سے عام آدمی تاحال محروم ہے۔ اشیائے خوردونوش کے نرخ کم ہوئے ہیں اور نہ ہی ٹرانسپورٹ کے کرائے میں کوئی کمی ہوئی ہے، کراچی میں وزیر ٹرانسپورٹ کی موجودگی میں ٹرانسپورٹ مافیا کے سرغنہ ارشاد بخاری نے عوام پر احسان کرنے کے انداز میں بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ایک روپےکی کمی کردی گئی ہے، یعنی اونٹ کے منہ میں زیرہ۔اس موقع پرموجود وزیر ٹرانسپورٹ نےبڑی بےشرمی سےفرمایا کہ کرایوں میں کمی پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، کیا بات ہے اس بہادر وزیر کی۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی صوبائی حکومت اور ڈویژنل یا ضلعی انتظامیہ عوام کو ریلیف دلانے کے حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، جبکہ کرایہ میں کمی کے حوالہ سے ٹرانسپوٹروں اور مسافروں کے درمیان تلخ کلامی کے واقعات بھی ہوئے ہیں لیکن ٹرانسپوٹروں نے صاف طور پر کرایہ کم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف فرماتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچے تو قانون حرکت میں آئے گا، اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بے پناہ مشکلات کے باوجود نیک نیتی سے عوام کے مسائل حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، جی بلکل صیح فرمایا وزیر اعظم صاحب آپ نے گذشتہ سال جون سے عوام آپکی نیک نیتی کا ہی پھل کھارہے ہیں، بس یہ بات اور ہے کہ یہ پھل کڑوا ہے۔سب کو پتہ ہے کہ وزیر اعظم کے یہ بیانات اپنی سیاست چمکانے کےلیے ہیں، عوام کو ان بیانات سے کوئی فاہدہ نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم بےفکر رہیں پاکستانی عوام جو مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان کے مسائل پر کچھ نہیں بولتی وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے باوجود زیادہ کرایہ دینے پر مجبورزبانی احتجاج ضرور کرئے گی لیکن سڑکوں پرکوئی احتجاج نہیں ہوگا۔اب عام لوگوں میں ان مسائل کی وجہ سے دو عادتیں پڑگیں ہیں، عام لوگ خود غرض بھی ہوگے ہیں اور بے حس بھی۔ ہمارا حکمراں طبقہ عوام کی ان دو بری عادتوں کا پورا فاہدہ اٹھا رہا ہے۔
مجھے اس موقعہ پر انٹر نیٹ پر چلنے والی ایک کہانی ملی جو ہے تو ڈرون حملوں کے بارئے میں ہے لیکن ٹرانسپورٹ مافیا نےکرایہ کم نہ کرکے عوام پر ڈرون حملہ ہی کیا ہے، یہ کہانی عوام کی خود غرضی اور بےحسی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ میرئے ایک دوست نے ایک قصہ مجھے سنایا کہ کہ جب وہ حیدآباد سے کراچی آرہا تھا تو حیدرآبادسےکراچی آنے والی بس پر کنڈیکٹر نے ڈیڑھ گُنا کرایہ طلب کیا تو ایک نوجوان نے انکار کردیا۔ کنڈیکٹر کا کہنا تھا کہ سی این جی بند ہے ، لہذا بس ڈیزل سے چل رہی ہے جو اُنہیں مہنگا پڑتا ہے، چُنانچہ زیادہ کرایہ لینا اُنکی مجبوری ہے۔نوجوان کا کہنا تھا کہ چونکہ کرائے ڈیزل کے ریٹ کے حساب سے طے ہوتے ہیں لہٰذا سی این جی اور پٹرول دونوں غیر متعلقہ چیزیں ہیں۔ قصہ مختصر، ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے مطلُوبہ کرایہ نہ دینے والوں سے اُترنے کا مطالبہ کردیا۔ مُجھ سمیت پانچ افراد اس شرط پر تیار ہوگئے کہ ہمیں واپس اڈے پر پہنچادیا جائے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر راضی ہوئے ہی تھے کہ اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے “پڑھے لکھے” لوگوں کو کوسنا شروع کردیا۔
Bus
پتا یہ چلا کہ ان صاحب کو کراچی پہنچنے کی جلدی ہے اورہ ماری “خوام خواہ کی تکرار” سے اُنکا ٹائم ضائع ہورہا ہے۔ اُن کیساتھ بیٹھی ہوئی خاتون نے بھی حسبِ توفیق ہمیں برئے القاب سے نوازدیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ باقی سارے لوگ بھی خاموش ہوگےاور کنڈیکٹر کو اُسکا مانگا ہوا کرایہ دینے پر راضی ہوگئے سوائے میرے اور اُس نوجوان کے، ہم دونوں بھی بادلِ ناخواستہ بیٹھ گئے۔ دھیان بدلنے کیلئے اخبار کھولا تو پہلے ہی صفحے پرڈرون حملے کی خبر تھی۔ چند لمحوں میں یہی ڈرون حملہ سب کی زبان پرتھا۔ اچانک اگلی نشست سے اُن ہی صاحب کی آواز اُبھری جو پڑھے لکھوں کو کوس رہے تھے “بھائیو! ہمارے حکمران بے غیرت ہیں، ورنہ اللہ کے فضل سے ہم کسی امریکہ وغیرہ سے نہیں ڈرتے۔ اگر ہمارے حکمران چاہیں توہماری فوج لمحوں میں گرا مارے ان ڈرونوں کو۔
اس سے پہلے کہ کوئی اور جوابی تبصرہ آتا، نوجوان نے جلے کٹے لہجے میں کہا، “جناب جو قوم نہتے کنڈیکٹر کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی، وہ اپنے لیڈروں سے سُپر پاور کے سامنے کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتی ہوئی اچھی نہیں لگتی”۔کراچی پہنچنے تک پھر اُن صاحب کی آواز نہیں آئی۔ اس کہانی میں جو پیغام ہے وہ یہ ہے کہ جب تک عام لوگ خود غرضی اور بےحسی کے خول سی باہر نہیں آینگے اور عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے والوں کونہتے کنڈکٹر سمجھ کر اُسکے سامنے نہیں کھڑئے ہونگے یہ ظلم کے ڈرون حملےجاری رہنگے۔ آج پوری قوم کو اُس عوامی قوت کی ضرورت ہے کہ جس کے استمال کا مظاہرہ قوم نے 3 نومبر کو واہگہ بارڈر پر دہشت گردوں کے خلاف کیا تھااور دہشت گردوں کو واضع پیغام دئے دیا کہ ہم دہشت زدہ قوم نہیں ہیں، بلکل اسی عوامی قوت کا ایسا مظاہرہ حکومت اور اُن تمام کے سامنے بھی کیا جائے جو عوام کو بےبس سمجھتے ہیں۔
یقین کریں جس دن عوام نے اپنی “عوامی قوت” کا جس کی عوام میں شدید کمی پائی جاتی ہے بھرپور مظاہرہ کیا تو حکمرانوں اور ظالموں کی نیندیں اڑ جاینگی۔ عوامی قوت کے صیح استمال کےلیے اس قوم کو ایک ایسے سیاسی رہنما کی ضرورت ہے جو عوام کو خود غرضی اوربے حسی کے خول سے باہر نکال لائے اور عوام کو یہ بتاسکے کہ وہ کیوں مہنگائی کا شکار ہیں، وہ کیوں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو بھگت رہے ہیں اور وہ کیسے ان مصیبتوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا رہنما عوام کو مل گیا تو وہی عوام کا مسیحا ہوگا اور پھر کسی نہتے کنڈکٹر کی ہمت نہیں ہوگی کہ عوام کو بس سے اترنے کا کہہ سکے۔